کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 44
[نہ اسے کسی چیز کی امید و لالچ ہو گی اور نہ کسی چیز کا ڈر اور خوف ہوگا۔ توحید کی بنیاد بس یہی ہے] جن اور بھوتوں سے ڈرنا چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ سے ناتا جوڑ لو! مسلمان جس طرح ظاہری بلاؤں پر صبر کرتا ہے اور ان کے ڈر سے اپنا دین نہیں بگاڑتا، اسی طرح وہ جن اور بھوتوں کی ایذا و تکلیف پر بھی صبر کرے اور ان سے ڈر کر انھیں نہ مانے، بلکہ یہ سمجھے کہ فی الحقیقت ہر کام اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور اسی کے ارادے سے ہوتا ہے، مگر کبھی کبھی وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور بروں کے ہاتھوں بھلوں کو ایذا پہنچاتا ہے، تا کہ کچوں اور پکوں میں فرق ہو جائے اور مومن و منافق جدا جدا معلوم ہو جائیں۔ اگر کوئی شخص شرک سے بے زار ہو کر اوروں کو ماننا چھوڑ دے اور غلط رسموں کو مٹانے لگے، پھر اسے اگر مال یا آبرو یا اولاد میں کوئی نقصان پہنچے یا کوئی شیطان کسی پیر و شہید کا نام لے کر اسے تنگ کرے تو یہ صابر بن کر یہ سمجھے کہ دراصل اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری دین داری کو پرکھتا ہے اور ان ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے، مگر وہ انھیں کبھی ضرور پکڑے گا۔ توحید کی برکتیں اور شرک کی نحوستیں: ذرا توحید کے رتبے کو دیکھو! انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: یَا ابْنَ آدَمَ! إِنَّکَ لَوْ لَقِیْتَنِيْ بِقَرَابِ الْأَرْضِ خَطَایَا ثُمَّ لَقِیْتَنِيْ لَا تُشْرِکُ بِيْ شَیْئًا لَأَتَیْتُکَ بِقَرَابِھَا مَغْفِرَۃً))(رواہ الترمذي) [1] [اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم کے بیٹے! اگر تم میرے پاس زمین بھر کر گناہ لے کر آؤ مگر مجھے اس حال میں ملو کہ تم میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتے ہو تو میں تمھیں اتنی ہی بخشش کے ساتھ ملوں گا] اس حدیث قدسی کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں سب گناہ گاروں نے گناہ کیے ہیں۔ فرعون بھی اس دنیا میں تھا اور ہامان بھی بلکہ شیطان بھی اسی میں ہے۔ جتنے گناہ ان سب گناہ گاروں سے ہوتے ہیں، ایک آدمی وہ سب گناہ کرے، لیکن شرک سے پاک رہے تو جتنے گناہ ہیں، اللہ تعالیٰ اتنی
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۵۴۰)