کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 43
پھر اللہ نے آسمان، زمین اور آدم علیہ السلام کو اس بات پر گواہ کر لیا اور ہر کسی نے جدا جدا اللہ کی توحید کا اقرار کیا۔ لہٰذا کوئی بھی شرک کی بابت ایک دوسرے کی سند نہ پکڑے، نہ پیر کی نہ استاد کی نہ کسی فقیر و مولوی وبزرگ کی، بلکہ جس کا قول و فعل پیغمبر کے قول و فعل سے بال برابر بھی مختلف ہو، اس کو نہ مانے بلکہ رد کر دے۔ غرض کہ عالمِ ارواح ہی میں توحید کا حکم اور شرک سے ممانعت ہو چکی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے، اسی کی تائید میں آئے اور ساری کتابیں اسی کے بیان میں نازل ہوئیں۔ ان ہزاروں بلکہ لاکھوں پیغمبروں کا فرمانا اور ساری آسمانی کتابوں کا علم اسی ایک نکتہ میں ہے کہ انسان توحید کو خوب درست کرے اور شرک سے بہت دور بھاگے، اللہ کے سوا کسی کو حاکم سمجھے کہ وہ کسی چیز میں تصرف کر سکتا ہے نہ کسی کو اپنا مالک ٹھہرائے کہ اس سے اپنی کوئی مراد مانگے اور اپنی حاجت اس کے پاس لے جائے۔ انسان ہر حال میں شرک سے بچے: معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّإِنْ قُتِلْتَ أَوْ حُرِّقْتَ ))(رواہ أحمد) [1] [تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، خواہ تم قتل کر دیے جاؤ یا جلا دیے جاؤ] موحد کہ دری پائے ریزی زرش وگر ارّہ مے نہی بر سرش [اگر تم موحد کے قدموںمیں سونا چاندی ڈھیر کر دو اور اگر تم اس کے سر پر (اسے دونیم کرنے کے لیے) آرا رکھ دو] امید و ہراسش نہ باشد زکس ہمیں ست بنیاد توحید و بس
[1] [اور جب تیرے رب نے آدم کے بیٹوں سے ان کی پشتوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انھیں خود ان کی جانوں پر گواہ بنایا: کیا میں واقعی تمھارا رب نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں! ہم نے شہادت دی۔ (ایسا نہ ہو) کہ تم قیامت کے دن کہو: بے شک ہم اس سے غافل تھے]  مسند أحمد (۵/۲۳۸) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۰۳۴)