کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 42
(( أَنَا أَغْنیٰ الشُّرَکَائِ عَنِ الشِّرْکِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلاً أَشْرَکَ فِیْہِ مَعِيَ غَیْرِيْ تَرَکْتُہٗ وَ شِرْکَہٗ وَ أَنَا مِنْہُ بَرِئٌ ))(رواہ مسلم)[1] [میں شرکا میں شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں۔ جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا، جس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کیا تو میں اسے اور اس کے شرک کو ترک کر دیتا ہوں اور میں اس سے بے زار ہو جاتا ہوں] اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اور لوگ اپنی شرکت اور حصے داری کی چیز آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں، میں ایسے نہیں کرتا، کیونکہ میں بے پروا ہوں، بلکہ جو شخص کوئی کام میرے لیے کرے اور غیر کو بھی اس میں شریک کر دے تو میں اپنا حصہ بھی نہیں لیتا، بلکہ سارے کام ہی کو چھوڑ دیتا ہوں اور اس سے بے زار ہو جاتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ مشرک جو عبادت کرے، وہ اللہ کے ہاں مقبول نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ اس سے سخت بے زار ہے۔ حسن غیور او نہ پسندد شریک را آئینہ را بدست نگیرد نگار ما [اس کا غیرت مند حسن شریک کو پسند نہیں کرتا، میرا محبوب (حسن کے نقائص دور کرنے لیے) ہاتھ میں آئینہ نہیں پکڑتا] عالمِ ارواح میں توحید کا اقرار اور شرک کی نفی: جس دن اللہ تعالیٰ نے اولادِ آدم سے ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ﴾ کا عہد لیا تھا، اس دن ان سے یہ بات بھی کہہ دی تھی کہ جان رکھو! میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تم کسی چیز کو میرا شریک نہ ٹھہرانا، میں تمھارے پاس رسول بھیجوں گا، وہ تم کو میرا قول وقرار یاد دلائیں گے اور میں تم پر کتابیں نازل کروں گا تو اس پر لوگوں نے اقرار کر لیا تھا۔ (رواہ أحمد عن أبي بن کعب) [2] اس عہد و میثاق کا ذکر سورت اعراف میں بھی آیا ہے۔[3]
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۹۸۵) [2] مسند أحمد (۵/۱۳۵) المستدرک للحاکم (۲/۳۲۳) [3] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْم بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَ اَشْھَدَھُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غٰفِلِیْنَ﴾[الأعراف: ۱۷۲] (