کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 41
مشرکین اللہ غیور و قہار کی سزا سے نہیں بچ پائیں گے: شہنشاہ، مالک الملک، غیور و قہار اور سخت عذاب کرنے والے اللہ سے ڈرنا چاہیے کہ وہ انتہائی درجے کا علم اور قوت بھی رکھتا ہے اور ویسی ہی غیرت و عار بھی، لہٰذا وہ مشرکوں سے کیوں کر غفلت کرے گا اور کس طرح ان کو بے سزا چھوڑ دے گا؟ انھیں چھوڑنا تو درکنار ان کو ہمیشہ کے لیے جہنم کے ساتوں طبقوں میں رکھے گا اور کبھی اپنے سخت عذاب کو ان سے دور نہ کرے گا۔ آگ اور آگ میں جانے والوں کو ہرگز فنا نہ ہو گی، سارے مشرک ہمیشہ آگ میں رہیں گے، عیاذا باللّٰہ۔ مشرک کسی صورت میں عذاب سے نجات نہیں پائے گا: کوئی مشرک ہرگز یہ طمع نہ کرے کہ وہ عذابِ الٰہی سے نجات پائے گا، گو دنیا میں اس نے بہت طاعات، عبادات، حسنات اور خیرات کیے ہوں، کیونکہ شرک کی موجودگی میں ایمان باقی نہیں رہتا ہے اور بے ایمان کی کوئی عبادت، کم ہو یا زیادہ، قبول نہیں ہوتی۔ نجات کی واحد صورت: لہٰذا سب سے پہلے ایمان درست کیا جائے اور پھر عمل۔ اس درستی کو اخلاص و صواب کہا جاتا ہے۔ جو عمل خاص اللہ کے لیے ہوتا ہے اور اس میں کسی قسم کے شرک کی آمیزش نہیں ہوتی، وہ خالص کہلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ خالص اپنی رضا کے لیے کیے گئے عمل کے سوا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔ پھر جب وہ عمل سنتِ مطہرہ کے مطابق ہوتا ہے تو اس کا نام صواب ہے، اس کے سوا کوئی عمل قبول و منظور نہیں ہوتا۔ چنانچہ ایمان و عمل کا یہی طریقہ ہے، اس کے سوا جو کچھ ہے، وہ عجیب افسانہ یا خیالی باغ ہے۔ بعثتِ انبیا کا مقصد دعوتِ توحید اور ردِ شرک ہے: اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیا ورسل اس دنیا میں مبعوث کیے، سب کی طرف یہی وحی کی: ﴿ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ [الأنبیائ: ۲۵] [بے شک حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو] یہ تو توحید کو اختیار کرنے کا حکم ہے، باقی رہا شرک تو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اسے ظلمِ عظیم فرمایا ہے، نیز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی میں ہے: