کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 404
16۔سولھویں آیت ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا﴾ [التوبۃ: ۲۸] میں کہا ہے کہ مشرک نجس ہیں۔ اللہ نے شرک کو نجاست قراردیا ہے۔ بعض اہلِ ظاہر نے اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ مشرک نجس الذات ہوتا ہے، لیکن مذاہبِ اربعہ کے نزدیک وہ نجس الذات نہیں ہے، اس لیے ان کا کھانا ہمارے لیے حلال ہے اور ان کے برتنوں کو استعمال میں لانا جائز ہے۔ حدیث سے بھی اسی طرح معلوم ہوتا ہے[1] اور یہی حق بات ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مشرکوں میں دو طرح کی نجاست ہوتی ہے، ایک یہ کہ وہ طہارت اور غسلِ جنابت نہیں کرتے، رات دن نجاستوں میں ملوث رہتے ہیں۔ دوسری نجاست یہ کہ شرک کی وجہ سے ان کا باطن ناپاک رہتا ہے۔ 17۔سترھویں آیت ﴿وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ [یونس: ۱۰۶] میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرمایا ہے کہ آپ شرک کرنے والوں میں شامل نہ ہوں اور اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاریں، اگر ایسا کریں گے تو ظالم ہو جائیں گے۔ پکارنے سے مراد غیر اللہ کی عبادت ودعا ہے۔ 18۔اٹھارھویں آیت ﴿وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ [النحل: ۳۶] میں فرمایا کہ ہم نے ہر امت میں رسول بھیج کر یہ حکم دیا تھا کہ تم سب اللہ کی پرستش کرو اور طاغوت سے بچو۔ طاغوت اللہ کے سوا ہر باطل معبود کو کہتے ہیں، جیسے شیطان، کاہن، صنم ہیں۔ ہر گمراہی کی طرف بلانے والا طاغوت کہلاتا ہے، چاہے کوئی ہو، کہیں ہو، کسی جگہ اور زمانے میں ہو۔ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ طاغوت سے مراد اللہ کے سوا ہر معبود ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’ہر قوم کا طاغوت وہ ہے جس کے پاس وہ اللہ کے سوا اپنے مسائل ومقدمات لے جائیں اور اس سے حل کرنے کی درخواست کریں یا اس کو پوجیں یا بصیرت کے بغیر اس کی پیروی کریں یا جس بات کو نہیں جانتے، اس میں اس کے فرماں بردار بنیں۔ ان طواغیتِ عالم میں جب کوئی غور کرے گا اور لوگوں کا حال دیکھے گا تو جان لے گا کہ اکثر
[1] دیکھیں: صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۱۶۱) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۹۳۰)