کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 40
کے ہاں مقرر ہے، وہ ضرور پائے گا۔ رہے شرک کے سوا باقی گناہ، خواہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ، تو ان کی جو سزا اللہ کے ہاں مقرر ہے، وہ اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، چاہے تو سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔
شرک سب سے بڑا گناہ ہے:
دل سے صادر ہونے والے گناہوں کی تعداد ساٹھ ہے اور دیگر اعضا سے چار سو گناہ صادر ہوتے ہیں، پھر دل کے گناہ کا عذاب اعضا کے گناہوں سے بڑھ کر ہیں۔ بہر حال یہ بات بہ خوبی ثابت ہے کہ شرک سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہے۔ شرک کے ستر دروازے ہیں۔ ان میں سے جو مخفی شرک ہے، اس سے بچنا بہت مشکل ہے۔ چنانچہ جس شخص کو اپنا ایمان عزیز ہوتا ہے اور وہ اللہ کے قہر ناک عذاب سے نجات پانا چاہتا ہے تو وہ جستجو کر کے ہلکے درجے کے شرک سے بھی بچتا رہتا ہے اور جو کمزور ایمان والا ہے، وہ سہل انگاری کر کے اگر شرک جلی سے بچ بھی گیا تو شرک خفی سے نہیں بچتا، اور جب شرک سے نہ بچ سکا تو پھر اس کی نجات کیوں کر ممکن ہو سکتی ہے؟
شرک کی سنگینی کا بیان ۔۔۔ ایک مثال:
ایک بادشاہ کی رعایا اس کی جتنی نافرمانی کرتی ہے جیسے چوری و ڈاکا زنی، پہرے کے وقت سو جانا، دربار میںحاضری کے وقت کو ٹال جانا، لڑائی کے میدان سے کھسک جانا اور سرکار کا پیسہ پہنچانے میں کوتاہی کرنا وغیرہ؛ ان سب جرائم کی سزائیں بادشاہ کے ہاں مقرر ہیں، چاہے تو وہ ان پر پکڑ کر سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔ کوتاہیوں میں سے کچھ کوتاہیاں اس رنگ ڈھب کی ہوتی ہیں جن سے بغاوت ظاہر ہوتی ہے، جیسے کوئی شخص بادشاہ کی موجودگی میں کسی امیر یا وزیر یا چودھری یا قانون گو یا کسی چُوہڑے چمار کو بادشاہ بنائے یا اس کے لیے تاج و تخت تیار کرے یا اسے ظلِ سبحانی کے لقب سے یاد کرے یا اس کے سامنے بادشاہ کے آداب جیسے آداب بجا لائے، اس کی تعظیم کرے یا اس کے لیے جشن کا ایک دن مقرر کرے اور بادشاہ کی طرح اس کو نذرانے پیش کرے، چونکہ یہ بڑا گناہ ہے، اس لیے اس جرم کی جو سزا مقرر ہے، وہ مجرم کو ضرور ملتی ہے۔ جو بادشاہ اس سے غفلت کرے اور ایسے بڑے مجرموں اور باغیوں کو سزا نہ دے تو اس کی بادشاہی میں نقص اور کمزوری ہے۔ عقل مند لوگ ایسے بادشاہ کو بے غیرت کہتے ہیں۔