کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 37
جانور لے جانا، وہاں منتیں ماننا، اس کی چوکھٹ کے آگے کھڑے ہو کر دعا مانگنا، التجا کرنا، دین و دنیا کی مرادیں مانگنا، حجر اسود کو چومنا، مقام ملتزم سے اپنا منہ اور چھاتی ملنا، اس کا غلاف پکڑ کر دعا کرنا، اس کا مجاور بن کر اس کی خدمت میں مشغول رہنا، جیسے جھاڑو دینا، چراغ جلانا، قالین وغیرہ بچھانا، پانی پلانا، لوگوں کے لیے وضو اور غسل کا سامان درست کرنا، چاہِ زم زم کے پانی کو تبرک سمجھ کر پینا، بدن پر ڈالنا، آپس میں بانٹنا، دوسروں کے لیے لے جانا، رخصت ہوتے وقت الٹے پاؤں چلنا،[1] بیت اللہ کے آس پاس جنگل کا ادب کرنا، مثلاً اس کا درخت نہ کاٹنا، گھاس نہ اکھاڑنا اور مویشی نہ چرانا تو یہ سب وہ کام ہیں جو اس نے اپنی عبادت کے لیے بندوں کو بتائے ہیں۔ پھر جو شخص ایسے کام اللہ کے سوا کسی اور کے لیے کرے تو اس پر شرک ثابت ہو جاتا ہے اور اسے ’’اشراک فی العبادۃ‘‘ کہتے ہیں۔
پھر خواہ یوں سمجھے کہ یہ خود ہی اس تعظیم کے لائق ہیں یا ان کی اس طرح کی تعظیم سے اللہ خوش ہوتا ہے اور اس تعظیم کی برکت سے اللہ تعالیٰ مشکلیں آسان کر دیتا ہے، ہر طرح سے شرک ثابت ہو جاتا ہے۔
4۔ اشراک فی العادۃ:
اللہ تعالیٰ کے اپنے ساتھ خاص کی ہوئی چیزوں میں سے چوتھی چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اپنے دنیا کے کاموں میں اللہ کو یاد رکھیں اور اس کی تعظیم کرتے رہیں تاکہ ان کا ایمان بھی درست رہے اور ان کاموں میں بھی برکت ہو، جیسے کسی پھنسے ہوئے کام پر اللہ کی نذر ماننا، مشکل کے وقت اسے پکارنا، اس کے نام سے ہر کام کی ابتدا کرنا، جب بندے کو اولاد سے نوازا جائے تو اس کے شکر میں اس کے نام کا جانور ذبح کرنا، اولاد کا نام عبداللہ، عبدالرحمن، اللہ بخش، اللہ دتہ، امت اللہ اور الہدیٰ رکھنا، کھیت و باغ میں سے تھوڑا بہت اس کے نام کا رکھنا، ریوڑ میں سے کچھ اس کی نیاز رکھنا، حج کی قربانی والے جانور کا ادب کرنا، جو بھلائی اور برائی دنیا میں پیش آتی ہے، جیسے قحط و ارزانی، صحت و بیماری، فتح وشکست، اقبال و ادبار اور غمی و خوشی؛ یہ سب اسی کے اختیار میں سمجھنا، کام کرنے سے پہلے ان شاء اللہ کہنا، اس کے نام کو ایسی تعظیم سے لینا جس میں اس کی مالکیت اور اپنی بندگی ظاہر ہو، جیسے یوں کہنا: ہمارا رب، ہمارا مالک اور ہمارا خالق، ضرورت کے وقت اسی کی قسم کھانا وغیرہ، اس طرح کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنی تعظیم کے لیے بتائی ہیں، پھر جو کوئی کسی اور کی اس
[1] اس عمل کی کتاب وسنت میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔