کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 36
عقیدہ انبیا و اولیا کے متعلق ہو یا پیرو شہید کے متعلق، امام و امام زادے سے اس کا تعلق ہو یا بھوت و پری سے، غرض کہ اس عقیدے سے ہر طرح شرک ثابت ہو جاتا ہے۔ 2۔ اشراک فی التصرف: اللہ تعالیٰ کے اپنے ساتھ خاص کی ہوئی چیزوں میں سے دوسری چیز یہ ہے کہ کائنات میں اپنے ارادے سے تصرف کرنا، اپنا حکم جاری فرمانا، اپنی خواہش سے مارنا اور زندہ کرنا، مرادیں پوری کرنا، حاجتیں بر لانا، بلائیں ٹالنا، مشکل میں دستگیری کرنا اور برے وقت میں پہنچنا؛ یہ سب اللہ ہی کی شان ہے۔ کسی نبی، ولی، پیر، شہید، بھوت اور پری کی یہ شان ہر گز نہیں ہے۔ تو جو شخص کسی کے لیے ایسا تصرف ثابت کرے، وہ مشرک ہو جاتاہے۔ اس قسم کے شرک کو ’’اشراک فی التصرف‘‘ کہتے ہیں۔ ’’اشراک فی التصرف‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ کسی دوسرے کے لیے اللہ کے تصرف جیسا تصرف ثابت کرنا، چنانچہ یہ شرک محض ہے۔ پھر خواہ یوں سمجھے کہ انھیں ان کاموں کی طاقت ہے یا اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی قدرت بخشی ہے، ہر طرح سے شرک ثابت ہو جاتا ہے۔ 3۔ اشراک فی العبادۃ: تیسری چیز یہ ہے کہ بعض تعظیم کے کام اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خاص کیے ہیں، جن کو عبادت کہا جاتا ہے، جیسے سجدہ، رکوع اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، اس کے نام پر مال خرچ کرنا، اس کے نام کا روزہ رکھنا، اس کے گھر کی طرف دور دور سے چل کر آنا، ایسی صورت بنا کر چلنا کہ ہر کوئی جان لے کہ یہ لوگ اس کے گھر کی زیارت کو جاتے ہیں، راستے میں اس مالک کا نام پکارنا اور کہنا: ’’لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ‘‘ [اے اللہ! میں تیری خدمت میں حاضر ہوں، میں تیری خدمت میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں تیری خدمت میں حاضر ہوں، سب تعریف اور نعمت تیرے لیے ہی ہے اور سلطنت بھی تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں] اس دوران میں نامعقول کاموں اور شکار کرنے سے بچنا اور انہی پابندیوں کو اختیار کرتے ہوئے جا کر طواف کرنا، اس کے گھر (بیت اللہ) کی طرف سجدہ کرنا، اس کی طرف قربانی کے لیے