کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 34
ہوئے ان شریکوں کو پکارنے نہ پکارنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے، بلکہ جو شخص کسی کو سفارشی سمجھ کر پوجے تو وہ بھی مشرک ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندے کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اپنے فضل و کرم سے کسی واسطے اور طفیل کے بغیر سب مرادیں پوری کرتا ہے اور سب بلائیں ٹال دیتا ہے۔ اگر بندہ اس مشکل کشا و حاجت روا اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر الٹی راہ پر چلے گا تو جیسے جیسے اس راہ میںچلے گا، ویسے ویسے اللہ سے دور ہوتا جائے گا۔ کافروں سے بھی اگرپوچھو کہ وہ ہستی کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی مکمل بادشاہی ہے اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دی جاتی؟ تو وہ بھی ضرور کہیں گے کہ اللہ ہے، پھر یہ کہاں سے خبطی ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ اس بات پر دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کسی کو تصرف کرنے کی قدرت نہیں دی ہے اور کوئی کسی کی حمایت کرتے ہوئے اسے پناہ نہیں دے سکتا۔ زمانۂ جاہلیت کے شرک کی نوعیت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کافر بھی اپنے معبودوں کو اللہ کے برابر نہیں جانتے تھے، بلکہ انھیں اللہ کا بندہ اور مخلوق سمجھتے تھے اور پھربھی وہ کافر اور مشرک تھے، کیونکہ وہ ان معبودوں کو پکارتے ، ان کی منتیں مانتے، ان کی نذر و نیاز کرتے اور انھیں اپنا وکیل اور سفارشی سمجھتے تھے، لہٰذا جو شخص کسی سے یہ معاملہ کرے، چاہے اسے اللہ کا بندہ اور مخلوق سمجھے، تو وہ اور ابو جہل شرک میں برابر ہیں۔ شرک کی حقیقت: شرک محض اسی پر موقوف نہیں ہے کہ انسان کسی کو اللہ کے برابر سمجھے اور اس کے مقابل جانے، بلکہ شرک کے معنی یہ ہیں کہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خاص کی ہیں اور اپنے بندوں کے حق میں بندگی کا نشان و علامت ٹھہرائی ہیں، وہ کسی اور کے لیے کرے، جیسے کسی کو سجدہ کرنا، جانور کسی کے نام پر وقف اور ذبح کرنا، اس کی منت ماننا، مشکل کے وقت اسے پکارنا، اسے ہر جگہ حاضرو ناظر سمجھنا اور اس کے لیے تصرف کی قدرت ثابت کرنا؛ ان سب باتوں سے شرک ثابت ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس بات میں انبیا و اولیا، جن و شیاطین اور بھوت وپری میں کچھ فرق نہیں ہے۔ یعنی بندہ جس کسی سے یہ معاملہ کرے گا، وہ مشرک ہو جائے گا، خواہ وہ یہ معاملہ انبیا، اولیا، پیروں اور شہیدوں ہی سے کیوں نہ کرے، جو اللہ کے نیک بندے ہیں یا خواہ بھوت و پری اور بتوں سے یہ معاملہ کرے جو بدہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے