کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 33
مقدمہ
توحید و شرک کا بیان
دعویٰ ایمان کا ۔۔۔ کام مشرکوں والے:
اکثر لوگ توحید وشرک کے معانی تک نہیں سمجھتے، لیکن پھر بھی وہ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿ وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ھُمْ مُّشْرِکُوْنَ﴾ [یوسف: ۱۰۶]
[اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، مگر اس حال میں کہ وہ شریک بنانے والے ہوتے ہیں]
مطلب یہ ہے کہ اکثر لوگ ایمان لا کر بھی شرک کرتے ہیں اور پیروں، پیغمبروں، اماموں، شہیدوں، فرشتوں اور پریوں کو مشکل کے وقت پکارتے ہیں، ان سے مرادیں مانگتے ہیں، ان کی منتیں مانتے ہیں، اپنے کام نکلوانے کے لیے ان کی نذر ونیاز کرتے ہیں، بلا و آزمایش ٹالنے کے لیے اپنی اولاد کو ان کی طرف منسوب کرتے ہیں، کوئی اپنے بیٹے کا نام عبدالنبی رکھتا ہے تو کوئی پیر بخش اور غلام محی الدین۔ کوئی اپنے بچوں کی زندگی کی خاطر کسی کے نام کی چوٹی رکھتا ہے تو کوئی انھیں کسی کے نام کا پٹکا یا کپڑے پہناتا ہے، کوئی کسی کے نام کی بیڑی پہنتا ہے، کوئی کسی کے نام کا جانور ذبح کرتا ہے، کوئی مشکل کے وقت کسی کی دہائی دیتا ہے اور کوئی اپنی گفتگو میں کسی کے نام کی قسم کھاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے تمام شریک بے اختیار ہیں:
اللہ تعالیٰ بندوں کے سب سے زیادہ نزدیک ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر مشرک لوگ جن کو پکارتے ہیں، اللہ نے انھیں کچھ قدرت نہیں دی، نہ کسی کو فائدہ پہنچانے کی نہ کسی کا نقصان کرنے کی۔ وہ کسی کے سفارشی بھی نہیں بن سکتے، حتی کہ انبیا کی سفارش بھی اللہ کے اختیار میں ہے۔ مشرکوں کے ٹھہرائے