کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 32
﴿ وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ وَ مَا یَکْفُرُ بِھَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۹۹]
[اور بلاشبہہ یقینا ہم نے تیری طرف واضح آیات نازل کی ہیں اور ان سے کفر نہیں کرتے مگر جو فاسق ہیں]
اب کہاں رہی یہ بات کہ پیغمبر کی بات کو علما کے سوا کوئی نہیں سمجھتا اور اس کی بتائی ہوئی راہ پر بزرگوں کے سوا کوئی نہیں چل سکتا؟ اس کے بجائے یوں کہنا چاہیے کہ جاہل لوگ اللہ و رسول کا کلام سمجھ کر عالم بن جاتے ہیں اور گمراہ لوگ ان کی راہ پر چل کر ہدایت یافتہ بزرگ بن جاتے ہیں۔
ایمان کے دو اجزا:
ایمان کے دو جزو ہوتے ہیں۔ ایک اللہ کو اللہ جاننا اور دوسرا رسول کو رسول سمجھنا۔ اللہ کو اللہ جاننے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بات میں کسی کو اس کا شریک نہ سمجھے اور رسول کو رسول سمجھنا اس طرح ہوتا ہے کہ اس کے سوا کسی کی راہ اختیار نہ کرے۔ پہلی بات کو توحید اور اس کے خلاف کو شرک کہتے ہیں اور دوسری بات کو اتباعِ سنت کہتے ہیں اور اس کے خلاف کو بدعت۔ لہٰذا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ توحید و اتباعِ سنت کو خوب مضبوطی سے تھامے اور شرک و بدعت سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرے، کیونکہ یہ دونوں چیزیں اصل ایمان میں خلل ڈالتی ہیں، ان کے سوا دیگر گناہ ان کے بعد ہیں، کیونکہ وہ صرف اعمال میں خلل پیدا کرتے ہیں۔
٭٭٭