کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 316
(( مَنْ مـَاتَ وَھُوَ یَعْلَمُ أنَّہٗ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ )) [1] (رواہ مسلم)
[جو شخص اس بات پر یقین رکھتے ہوئے انتقال کر گیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو وہ جنتی ہے]
8۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک طویل مرفوع حدیث میں ہے:
(( فَمَنْ لَقِیَکَ مِنْ وَّرَائِ ھٰذَا الْحَائِطِ، یَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، مُسْتَیْقِنًا بِھَا قَلْبُہٗ، فَبَشِّرْہٗ بِالْجَنَّۃِ )) [2] (رواہ مسلم)
[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اس باغ کے پیچھے تمہاری ملاقات کسی ایسے شخص سے ہو جائے جو دل کے یقین کے ساتھ یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو اس کو جنت کی خوش خبری سنا دو]
9۔معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَفَاتِیْحُ الْجَنَّۃِ: شَھَادَۃُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إلاَّ اللّٰہُ )) [3] (رواہ أحمد)
[جنت کی کنجیاں اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے]
کلمۂ توحید کی اہمیت:
جو شخص اس کلمے کا قائل ہے، وہ مسلمان ہے اور جو اس کا منکر ہے، وہ اسلام سے خارج ہے۔ اس کلمے کا لفظی معنی بہت آسان ہے، لیکن اس معنی کا حقیقی وجود بہت مشکل ہے۔ کلمے کا پہلا جملہ (( أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ ))توحید کی جڑ ہے اور دوسرا جملہ (( أَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰہِ )) تصدیقِ رسالت کا خاص طریقہ ہے۔ جو کوئی توحید پر قائم و دائم ہو کر ہر قسم کے ظاہری ومخفی شرک سے بچتا رہا، وہ یقینا جنتی ہوگا، لیکن جو شخص شرک سے نہیں بچا، چاہے ہزار بار زبان سے اس کلمے کو پڑھے اور اسلام و ایمان کا دعوی کرے، وہ دوزخ ہی میں جائے گا، اس کی مغفرت ہرگز نہیں ہوگی۔
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۶)
[2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۳۱)
[3] مسند أحمد (۵/۲۴۲) اس کی سند ضعیف ہے۔ امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’رواہ أحمد والبزار، وفیہ انقطاع بین شھر و معاذ، و إسماعیل بن عیاش روایتہ عن أھل الحجاز ضعیفۃ، وھذہ منھا‘‘ (مجمع الزوائد: ۱/۱۶۱، السلسلۃ الضعیفۃ: ۳/۴۷۷)