کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 31
آغازِکتاب بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم الحمد للّٰہ القائل في کتابہ العزیز ﴿فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا﴾ والصلاۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ ومن تبعھم بالإحسان في الإیمان والإسلام أبدا۔ أمابعد: بندگی کا معیار: یہ بات سب کو معلوم ہے کہ تمام لوگ اللہ کے بندے ہیں۔ بندے کا کام بندگی کرنا ہوتا ہے اور جو بندہ بندگی نہ کرے، وہ بندہ نہیں ہوتا۔ اصل بندگی ایمان کا درست کرنا ہے۔ جس کے ایمان میں کچھ خلل ہے، اس کی بندگی قبول نہیں اور جس کا ایمان درست ہے، اس کی تھوڑی سی بندگی بھی بہت ہے۔ بندگی کی بہترین راہ یہ ہے کہ بندہ اللہ و رسول کے احکام کو اصل جانے، اسی کی سند پکڑے اور اپنی عقل کو اس میں دخل نہ دے۔ جس عالم یا درویش کا کلام اس کے موافق ہو، قبول کر لے اور جو اس کے موافق نہ ہو، اس کو سند نہ بنائے، اسی طرح جو راہ و رسم اس کے خلاف ہو، اسے ترک کر دے۔ دین فہمی کے لیے تھوڑا سا علم بھی کافی ہے: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سمجھنے کے لیے بہت زیادہ علم نہیں چاہیے، کیونکہ پیغمبر تو نادانوں کو راہ بتانے، جاہلوں کو سمجھانے اور بے علموں کو علم سکھانے کے لیے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ﴾ [الجمعۃ: ۲] [وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہی میں سے بھیجا، جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتا ب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلا شبہہ وہ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں تھے] ایک جگہ فرمایا: