کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 233
ہیں، یہ سب شیطانی سامان ہے۔
45۔حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما میں فرمایا ہے کہ مشرکوں کی مخالفت کرو، ڈاڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کم کرو۔ اس کو شیخین نے روایت کیا ہے۔[1]
اس سے معلوم ہوا کہ ڈاڑھی دین اسلام کی نشانی ہے، بلکہ مسلمانوں کی وردی ہے۔ ایک مشت[2] سے ڈاڑھی کم کرنا یا مونچھیں بڑی بڑی کرنا، کفر کی علامت ہے اور ڈاڑھی منڈوانا یا دائیں بائیں سے کم کرنا شرک کی علامت ہے۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۸۹۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۵۹)
[2] ایک مشت ڈاڑھی رکھنے کی تعیین کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ بعض علما کا قول ہے۔ ان کا استدلال صحیح بخاری (۱۰/۳۴۹) میں مذکور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ایک اثر سے ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی ڈاڑھی کو پکڑتے اور ایک مشت سے زائد جو ہوتا اس کو کاٹ لیتے تھے۔
علامہ طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس اثر سے استدلال کرتے ہوئے ایک جماعت ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کے کاٹنے کی قائل ہے، جب کہ علامہ ابن التین نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر کے ظاہری مفہوم کا انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک مشت ہی ڈاڑھی رکھتے تھے، بلکہ آپ ڈاڑھی پکڑتے تھے اور ٹھوڑی کے نیچے کے کچھ بال اپنی ڈاڑھی کی درازی کو برابر کر لینے کے لیے کاٹ لیتے تھے۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ڈاڑھی مونڈنا، کاٹنا اور اس کو برابر کرنا ممنوع ہے، لیکن اگر ڈاڑھی بڑی ہو تو اس کے طول یا عرض سے کچھ لینا بہتر ہے۔ ان کی دلیل عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی
ترمذی کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈاڑھی کے طول وعرض سے کچھ لیتے تھے۔ لیکن یہ روایت صحیح نہیں ہے، کیونکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے اس کو منکر اور باطل قرار دیا ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ نے قاضی عیاض کا تعاقب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ قول ڈاڑھی بڑھانے کے حکم میں وارد
احادیث کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے، بلکہ سب سے بہتر اور صحیح قول یہ ہے کہ ڈاڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے، اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے اور اس میں سے کچھ نہ کاٹا جائے۔ (فتح الباري: ۱۰/۳۵۰) شرح صحیح مسلم (ا /۱۲۹) ڈاڑھی رکھنے کے بارے میں احادیث میں کل پانچ الفاظ وارد ہیں: ’’أعفوا‘‘، ’’أوفوا‘‘، ’’أرخوا‘‘، ’’أرجوا‘‘، ’’وفروا‘‘۔
ان سب کا معنی یہ ہے کہ ڈاڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اس کے ساتھ کسی طرح کا تعرض نہ کیا جائے۔ جیسا کہ شروح الحدیث فتح الباری اور شرح مسلم وغیرہ میں مذکور ہے۔
علامہ محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ ( ۴ /۱۱) میں بیان کرتے ہیں کہ بعض لوگ ابن عمر، عمر اور ابوہریرہy کے آثار سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کاٹ دینی چاہیے۔ یہ استدلال ضعیف ہے، کیونکہ ڈاڑھی بڑھانے کے بارے میں منقول صحیح مرفوع احادیث ان (