کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 228
بہتر ہے، کیونکہ اس حدیث میں یوں فرمایا ہے کہ پھر اس کو آگ کا بالا ہنسلی کڑا پہننا ہو گا۔ مرد پر سونا،چاندی دونوں حرام ہیں، خواہ الگ الگ ہوں خواہ ملے جُلے۔ مرد زیور کے سوا اور چیزوں میں چاندی کا استعمال کر سکتا ہے۔
29۔حدیثِ حذیفہ رضی اللہ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے اور ریشم و دیباج اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ اس کو شیخین نے روایت کیا ہے۔[1]
معلوم ہوا کہ دیبا ودارائی کا پہننا اور اس کی مسندیں بنانا حرام ہے۔ ظاہر حدیث یہ ہے کہ سونے چاندی کے برتنوں میں فقط کھانا پینا منع ہے نہ کہ اور طرح کا استعمال، لیکن فقہا نے کہا ہے کہ چاندی وسونے کے عطردان، پاندان، خاصدان، چمچا وغیرہ ظروف وآلات سب حرام ہیں۔ پس احتیاط اولیٰ ہے۔
30۔حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما میں فرمایا ہے کہ کوئی چاندی اور سونے کے برتن میں پیے گا یا جس میں کچھ بھی سونا و چاندی ہو گا تو وہ اپنے پیٹ میں آگ غٹ غٹ پیتا ہے۔ اس کو دار قطنی نے روایت کیا ہے۔[2]
اس سے معلوم ہوا کہ نرے زر وسیم کا برتن یا دونوں کا ملا ہوا، چاندی کا ملمع یا گل بوٹے سونے کے یا سونے وچاندی کی فقط تحریریں، ان سب میں کھانا پینا ایسا برا ہے جیسے دوزخ کی آگ کھانا۔
31۔ابن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً کہتے ہیں کہ مخنث مرد اور مردانہ عورت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے۔ اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔[3]
[1] ورتوں کے لیے حلقہ دار سونے کے زیورات جیسے بالی، کنگن، ہنسلی اور انگوٹھی وغیرہ کو حرام قرار دیا ہے۔ ان کے رد میں علامہ اسماعیل بن محمد انصاری نے ’’إباحۃ التحلي بالذھب المحلق للنسائ‘‘ تالیف کر کے ہر طرح کے سونے کے زیور کو عورتوں کے لیے مباح قرار دیا ہے۔ ہندو پاک کے اکثر علما اسی کے قائل ہیں۔ اسی طرح عالی جناب مفتی محمد ابراہیم نے علامہ البانی رحمہ اللہ کی تعریف کرنے کے بعد کہا ہے کہ ان کے بعض مبنی بر شذوذ مسائل ہیں، ان ہی مسائل میں سے یہ مسئلہ بھی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: فتاویٰ الشیخ محمد إبراہیم (۴/۹۲) المجموع للنووي (۶ /۴۰) فتاویٰ ابن باز (۱/ ۲۴۶-۲۴۹) اردو اڈیشن۔
صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۸۳۷) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۰۶۷)
[2] سنن الدار قطني (۱/۴۰) امام دار قطنی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’میزان الاعتدال‘‘ (۴/۴۰۶) میں کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے۔
[3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۸۸۵)