کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 224
اسی طرح نوروز کی خوشی کرنا اور مہر جان کا ماننا مجوس کے ساتھ مشابہت ہے، سینے پر پیش روگریبان رکھ کر بوتام لگانا، تنگ تنگ کپڑے پہننا، گلو بند لگانا، انگریزی رفتار چلنا، بڑے دن کی تعظیم کرنا، نصاریٰ کو اس کی مبارک باد دینا، بڑے دن کے سلام کو جانا، اُس دن نذر و نیاز کی ڈالیاں لے جانا، دُم بریدہ گھوڑے پر سوار ہونا، غم میں سیاہ کپڑے پہننا، یہ سب عیسائیوں کے ساتھ مشابہت ہے۔ نیز اپنی شان وشوکت کے لیے سب سے اونچے ہو کر بیٹھنا، ہاتھیوں پر نمود کے لیے سوار ہونا، بہت سی جلو سواری میں رکھنا، ڈنکا گھڑیال، ماہی مراتب رکھنا، جھک کر سلام کرنا، آداب تسلیمات بجا لانا، یہ سب اکاسرہ و قیاصرہ اور کفار و مشرکین کے ساتھ مشابہت ہے۔ 14۔نیز زینت کے بعض اسباب وہ ہیں جن سے خاص نہی آئی ہے، جیسے مرد کے لیے سونا اور ریشمی کپڑا پہننا، اس کی حرمت حدیثِ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ میں آئی ہے۔ اس کو ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔[1] حریر وہ ہے جس کا تانا بانا بالکل ریشم ہو۔ یہ بوڑھے، جوان، بچے سب کے حق میں حرام ہے، مگر بچہ گناہ گار نہیں ہوتا۔ جو اس کو پہنائے وہ گناہ گار ہے۔ یہ جمہور کے نزدیک مشروع اور جائز ہے، لیکن ابن دقیق العید اور شوکانی رحمہما اللہ اس کو بھی غیر مشروع کہتے ہیں۔ 15۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص نے ایک جوڑا بھیجا تھا، اس میں ریشمی دھاریاں تھیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو دیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے اس کو پہنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ معلوم ہوا۔ فرمایا: میں نے تیرے پاس تیرے پہننے کو نہیں بھیجا تھا، اس لیے بھیجا تھا کہ تو اس کو پھاڑ کر عورتوں کی اوڑھنیاں بنا دے۔ اس کو شیخین نے روایت کیا ہے۔[2] وہ کپڑا بالکل ریشمی نہ تھا، فقط اس میں ریشم کی دھاریاں تھیں، لیکن اس پر بھی غصہ فرمایا۔ معلوم
[1] ان کے پہننے میں بھی آسانی زیادہ ہے، اسی لیے قمیص کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا اور زیب تن بھی کیا تھا، جیسا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ قمیص تھی جس کو آپ پہنتے تھے۔ (سنن أبی داؤد، ترمذي، ابن ماجہ، مسند أحمد، مستدرک الحاکم) آج بھی کرتا، قمیص، شلوار، پاجامہ اور ازار، کوٹ، پتلون، شرٹ، نیکر وغیرہ مغربی طرز کے ملبوسات سے زیادہ ساتر اور استعمال کے اعتبار سے زیادہ آسان ہیں، لہٰذا مغرب کی اس نقالی سے احتراز بہتر ہے۔ واللّٰه أعلم بالصواب۔  سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۷۲۰) سنن النسائي (۸/۱۶۱) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۶۲۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۰۷۱)