کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 223
13۔اسی طرح حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں فرمایا ہے کہ یہود ونصاریٰ ڈاڑھیاں نہیں رنگتے، سو تم ان کے خلاف کرو، یعنی رنگو۔ اس کو شیخین نے روایت کیا ہے۔[1]
اس سے معلوم ہوا کہ وضع قطع میں بھی کفار سے مخالفت کرے۔ ان تینوں احادیث سے معلوم ہوا کہ کافر کی مشابہت کسی امر میں بھی نہ کرے، جیسے ہولی کی خوشی کرنا، ہندوؤں سے ہولی میں ملاقات کرنا، ہولی کھیلنا، دیوالی میں روشنی کرنا، کھیلیں، مٹھائی، کھلونے آپس میں بانٹنا، اولاد کو دینا، شبِ براء ت میں روشنی کرنا، آتش بازی چھوڑانا، نیل کنٹھ دیکھنے کو مبارک سمجھنا، دیوالی اور سہرے میں جانوروں کا رنگنا، بسنتی پوشاک پہننا، دسہرے بسنت میں نربد، گنگا، ہر دوار وغیرہ میںجانا، چوٹیاں رکھنا، مونچھیں بڑھانا، ڈاڑھی منڈوانا، ماتھے پر قشقہ، ٹیکا لگانا، گائے،گنگا، پیپل وغیرہ معابد ہنود کی تعظیم کرنا، گائے کا گوشت نہ کھانا، دھوتی باندھنا، لہنگا چولا پہننا، چوکا دے کر کھانا، گوبر کو پاک سمجھنا، اپنے آپ کو راجا کنور، ٹھاکر کہلانا، پیتل پھول کے برتنوں کا اکثر استعمال کرنا، لڑکوں کو زیور پہنانا، کنگنا باندھنا؛ یہ سب ہنود کی مشابہت ہے۔ اسی طرح میز لگا کر چھری کانٹے سے کھانا،[2] کاٹھی پر سوار ہونا، انگریزی ٹوپی، جوتا پہننا، گھر کے عوض بنگلہ کوٹھی بنانا، گھر کو تصاویر سے سجانا، کمپنی باغ کی طرح باغ لگانا، بگھی پر سوار ہونا، کُرتی پتلون پہننا،[3] کھڑی زبان میں باتیں کرنا، کرسی لگا کر بیٹھنا وغیرہ؛ یہ سب نصاریٰ کے ساتھ مشابہت ہے۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۴۶۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۱۰۳)
[2] چھری کانٹے سے کھانے میں نصاریٰ کی مشابہت سے ممانعت شاید ابوداؤد کی اس حدیث کی بنیاد پر ہے جس کو انھوں نے سنن (۳۷۷۸) میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ گوشت کو چھری سے کاٹ کر نہ کھاؤ اس لیے کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ امام احمد بن حنبل نے اس میں ایک راوی ابو معشرنجیح کے ضعیف ہونے کی بنا پر اس کو رد کیا ہے۔ علامہ ابن الجوزی نے اسے موضوعات (۳۰۲۱۲) میں، امام سیوطی نے ’’اللالي المصنوعۃ‘‘ (۲/ ۲۲۵) میں اور علامہ البانی نے ’’ضعیف الجامع الصغیر‘‘ (۶۲۷۰) میں ذکر کیا ہے۔ اس کے معارض دو صحیح حدیثیں مروی ہیں جن سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طور پر گوشت کا چھری سے کاٹ کر کھانے کا ثبوت ملتا ہے۔ اس لیے چھری کانٹے سے کھانا جائز ہے۔ واللّٰه أعلم بالصواب۔
[3] کُرتی یعنی شرٹ پتلون اور کوٹ وغیرہ پہننے کا جہاں تک تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرب کا عام لباس صرف دو چادریں ہوا کرتی تھیں۔ ایک نیچے اور دوسری اوپر زیبِ تن کرتے تھے۔ قمیص (کرتے) پہننے کا رواج بہت ہی کم تھا، لیکن چادر کے مقابلے میں کرتے قمیص زیادہ پردے کا سبب ہیں اور (