کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 222
یعنی جس نے اپنے آپ کو کسی قوم سے مشابہ کیا تو وہ اُن میں ہے، خواہ وہ نصاریٰ ہوں یا مجوس، خواہ وہ ہنود ہوں یا فساق، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تو وہ شخص ان ہی لوگوں میں شمار ہو جاتا ہے۔ پھر اگر مکمل مشابہت اختیار کی تو بالکل جو احکام اُس قوم کے حق میں جاری ہوتے ہیں، وہی اس پر بھی جاری ہوں گے اور اگر تھوڑی مشابہت اختیار کی تو اسی قدر اُس قوم کے احکام اس پر جاری ہوں گے۔ پھر بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ آدمی اپنی زینت کے واسطے کرتا ہے تو اس سے کفار کے ساتھ مشابہ ہو جاتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ کافر جو کام اپنے دین کی بات جان کر کریں اور وہ بات مسلمانوں پر فرض و واجب نہ ہو تو وہی کام مسلمان کرے، یا جو کام کفار کے ساتھ مخصوص ہے اور اُن کی علامت وامتیاز ٹھہر گیا ہے تو وہ کام بھی مسلمان کے لیے کرنا منع ہے۔ کوئی کام ایسا ہوتا ہے کہ جب تک کافر اس ملک میں رہے اور وہ کام کرے تب تک مسلمان نہ کریں، لیکن جب وہ چلا جائے تب وہ کام مسلمان کو جائز ہو جاتا ہے۔ بعض کام وہ ہے کہ مسلمان کو جائز ہے اور اتفاقاً اس ملک میں کافر غالب ہو گئے اور وہی کام اپنے دین کی رو سے وہ کافر کرنے لگے، تو پھر اس کام کو مسلمان بھی مشابہت کے سبب سے نہ کرے۔ جو کام ہمارے دین میں فرض وواجب ہے، اگر وہی کام کافر بھی کرے تو وہ کام ہم کو چھوڑنا نہ چاہیے اور جو کام بشریت وآدمیت کا مقتضا ہے، جیسے کھانا، پینا، سونا، جاگنا، نکاح کرنا، کھیتی، باغ، زمین آباد کرنا، سینا، پرونا، تجارت کرنا؛ اس کام میں بھی مشابہت کا لحاظ نہیں ہوتا ہے۔ ہاں ان کاموں میں اگر کافر کوئی خاص وضع نکالے تو وہ مسلمان کے لیے یقینا منع ہو جائے گی۔ الغرض مسلمان کو کافر کا ہم رنگ اور ہم وضع بننا حرام ہے، خواہ لباس میں ہو یا چال ڈھال یا مکان یا سواری یا رسوم یا عبادات یا عادات یا مواسم واعیاد یا ماتم و سوگ وغیرہ میں ہو۔ 12۔رکانہ رضی اللہ عنہ نے مرفوعاً کہا ہے کہ ہمارے اور مشرکوں کے درمیان فرق ٹوپیوں پر پکڑیاں ہیں۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔[1] مکّے کے مشرک فقط پگڑی باندھتے تھے، اس کے نیچے ٹوپی نہ رکھتے، مسلمان ٹوپی پر پگڑی باندھتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان اور کافر کے لباس میں فرق کرنا چاہیے، اگرچہ ادنا بات میں ہو۔
[1] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۰۷۸) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۷۸۵) اس کی سند ضعیف ہے۔