کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 219
[پھر ہم نے اس کو کاٹ کر ڈھیر کر ڈالا گویا کل کو یہاں بستی نہ تھی] اس میں اللہ نے یہ خبر دی ہے کہ دنیا کی چیزیں اور سب لوگ آخرکار فنا ہو جاتے ہیں، پس جس کی حقیقت فنا ہو، اس پر دل لگانا کیا معنی رکھتا ہے؟ آنچہ دیر نپاید دلبستگی را نشاید یعنی جو چیز بھی دیر پا نہ ہو وہ دل بستگی کے مناسب نہیں۔ بلکہ مسلمان کو تو یوں جاننا چاہیے کہ دنیا کا عیش وآرام خاص کافروں کے واسطے ہے اور آخرت کی نعمت وبہشت ہمارے لیے ہے۔ 2۔حدیث میں آیا ہے: (( اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ )) [1] [دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے] اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر یہ لحاظ نہ ہوتا کہ لوگ ایک طرح کے ہو جائیں گے تو ہم اُن کو جو رحمن کے منکر ہیں، اُن کے گھروں کی چھتیں چاندی کی اور سیڑھیاں جن پر وہ چڑھیں اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت جس پر تکیہ لگا کر بیٹھیں، سونے کے بنا دیں، سو یہ سب کچھ نہیں مگر دنیا کی زندگی ہے اور آخرت تیرے رب کے یہاں پرہیز گاروں کے لیے ہے۔[2] یعنی کافروں کو آخرت میں عذاب ہونا ہے۔ دنیا میں تو وہ کچھ عیش وآرام کر لیں، مگر لحاظ یہ ہے کہ اور لوگ بھی کافروں کو زیادہ عیش وآرام میں دیکھ کر انھیں کی راہ اختیار کر کے سب کے سب ایک ہی طرح کے ہو جائیں گے۔ اس سبب سے کافروں کو دنیا میں زیادہ عیش نہیں دیا، وگرنہ دنیا میں کافروں کو اس قدر آسودگی ہوتی جس کا نمونہ ذکر ہوا۔ 3۔حدیثِ ابوامامہ رضی اللہ عنہ میں فرمایا ہے کہ سنو! سنو! پرانے کپڑے پہننا اور بہت زینت نہ کرنا ایمان کی بات ہے۔ دوبار یہی کلمہ فرمایا۔ اس کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔[3] یعنی جس کو آخرت کی نعمتوں کی خواہش ہوتی ہے، اس کے خیال میں دنیا کی زیب وزینت نہیں آتی۔ وہ دنیا کے زیادہ تکلف کو بے فائدہ جانتا ہے، پھر اگر میلا کچیلا کپڑا ہے تو کچھ پروا نہیں اور
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۹۵۶) [2] دیکھیں: سورۃ الزخرف (آیت: ۳۵) [3] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۱۶۱) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۱۱۸)