کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 214
اور اللہ تعالیٰ اترانے والے شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا ہے]
یعنی جتنے خوشی اور غم کے اسباب ہیں، سب کا حال ان کے دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے ہی اللہ کے یہاں کتاب میںلکھا ہے، پھر جس کو کچھ آفت پہنچے خواہ وہ آفت عام ہو، جیسے وباوقحط وغیرہ، خواہ آفت خاص ہو، جیسے کسی کا کوئی مر گیا تو وہ سب پہلے سے تقدیر کی کتاب میں لکھی تھی جو ٹلنے والی نہ تھی، پھرجو مصیبت پہنچے تو آدمی کو غم نہ کرنا چاہیے اور جو کچھ مل گیا اور خوشی ہوئی تو اس پر اِترانا نہ چاہیے کہ ہم ایسے ہیں کہ ہم کو یہ ملا اور ہمارے لیے ایسا ہوا، کیونکہ اللہ اترانے والے فخر کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا ہے۔
1۔حدیثِ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ میں نوحہ کرنے والی اور اس کو سننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔ اس کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔[1]
معلوم ہوا کہ چِلّانے والی عورت اور سننے والی دونوں ملعون ہیں، ہاں آنسو سے رونے اور دل کے رنج پر اللہ عذاب نہیں کرتا، جس طرح کہ صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً آیا ہے،[2]کیونکہ یہ آدمی کے اختیار میں نہیں ہے ہاں زبان سے شکایت اور مُردے کی نوحہ کرنے کی وصیت پر عذاب ہوتا ہے۔
2۔حدیثِ ابن مسعود رضی اللہ عنہ میں فرمایا ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں جو رخساروں پر طمانچے مارے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت جیسا چِلّائے۔ اس کو شیخین نے روایت کیا ہے۔[3]
3۔حدیثِ ابو موسیٰ[4] رضی اللہ عنہ میں فرمایا ہے کہ میں اس سے بے زار ہوں جو سر منڈوائے اور چلّا کر روئے اور گریبان پھاڑے۔ اس کو شیخین نے روایت کیا ہے۔[5]
پھر جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے زار ہیں، وہ کہاں کا مسلمان ہے؟
[1] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۳۱۲۸)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۳۰۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۲۴) اس حدیث کے الفاظ ہیں: ’’کیا تم نہیں سنتے کہ اللہ تعالیٰ آنکھ سے آنسو نکلنے اور دل کے غم پر عذاب نہیں دیتا ہے، مگر عذاب اس کے سبب سے دیتا ہے، پھر اپنی زبان کی طرف اشارہ فرمایا یا رحم کرتا ہے۔‘‘
[3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۲۹۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۰۳)
[4] زیر نظر کتاب اور تذیر الاخوان کے مطبوعہ نسخہ جات میں یہ روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مروی ہے، لیکن یہ درست نہیں، کیونکہ مذکورہ بالا روایت سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
[5] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۲۹۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۰۴)