کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 208
ہوتی ہے وہ بھی بد ہی ہوتی ہے۔
1۔عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے کہ بڑی برکت والا نکاح وہ ہے جو تکلیف میں سہل ہو۔ اس کو بیہقی نے روایت کیا ہے۔[1]
جس نکاح میں عورت تھوڑے مہر پر راضی ہو وہ نکاح مبارک ہوتا ہے۔ ایک کم بختی یہ ہے کہ لوگ مہر ادا نہیں کرتے، اسی سبب سے کمی وبیشی کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا، حالانکہ مہر قرض کے حکم میں ہے۔ مرنے کے بعد اگر مہر لیا جاتا ہے تو دوسرے رشتے دار ترکے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ میراث و فرائض کا باب بالکل بند ہو جاتا ہے۔ اگر تھوڑا مہر ہو تو دینا آسان پڑے۔
2۔عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ (پانچ سو درہم) تھا۔ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔[2]
اس حساب سے کچھ کم و بیش ایک سو چالیس روپے ہوتے ہیں۔[3] دوسرے مسلمانوں کی عورتوں کا اس سے بھی کم مہر ہونا چاہیے۔
3۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ اگر زیادہ مہر میں دنیا کے اندر کچھ بزرگی یا اللہ کے نزدیک تقویٰ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ اولیٰ تھے۔ اس کو احمد اور اہلِ سنن نے روایت کیا ہے۔[4]
یعنی جب دوسرے لوگ پیغمبر سے رتبہ وتقویٰ میں کم ہیں تو وہ کیوں زیادہ مہر مقرر کریں؟ اس میں کوئی خوبی نہیں ہے، ورنہ یہ شرف بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوتا۔
4۔ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار ہزار درہم تھا۔[5] وہ بادشاہِ حبشہ نجاشی نے اپنی طرف سے مقرر کر دیا تھا۔
[1] مسند أحمد (۶/۸۲) السنن الکبریٰ للبیھقي (۷/۲۳۵)
[2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۴۲۶)
[3] تذکیر الاخوان (ص: ۱۷۹) میں اسی طرح ہے۔ یہ حساب لین دین کے قدیم اندازے کے مطابق ہے۔ اب اس میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ علامہ عبد اللہ بن زید الحمود اپنے خطبات (ص: ۱۰۳۴) میں فرماتے ہیں کہ پانچ سو درہم کی یہ مقدار اب سو ریال سے قدرے کم ہے۔ اس حساب سے موجودہ وقت میں یہ تقریباً دو ہزار روپے کے مساوی ہے۔ واللّٰه أعلم بالصواب۔
[4] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۲۱۰۶) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۱۱۴) سنن النسائي (۶/۱۱۷) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۸۸۷)
[5] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۲۱۰۷)