کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 184
ان لوگوں پر جو قبروں پر مسجد بنائیں اور چراغ جلائیں۔ اس کو ابوداؤد، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔[1]
قبر پر شمع جلانا اور روشنی کرنا خواہ خود کرے یا س کے لیے اپنا پیسہ خرچ کرے، لعنت کا موجب ہے۔ مردہ اگر اللہ کا مقبول بندہ ہے تو اس کے لیے اللہ کی طرف سے روشنی ہے اور اگر مردود ہے تو حساب کتاب میں گرفتار ہے۔ پھر باہر کی روشنی سے اندر کا اندھیرا جانا ممکن نہیں۔ روشنی جلانے والا اور جلوانے والا دونوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے اور دونوں رو سیاہ ہیں۔ مسجد بنانا اگر نماز کے لیے ہے تو جہاں قبر زیر نگاہ ہو وہاں نماز درست نہیں ہے اور نماز اگر مردے کی تعظیم کے لیے ہے تو کفر ہے۔ اگر وہ مسجد نام کے لیے بنائی ہے تو حرام اور داخل اسراف ہے اور اگر مردے کی تعظیم کے لیے ہے تو اللہ کا مکان مخلوق کے لیے بنانا شرک ہے۔ اس لعنت میں معمار ومزدور بھی شریک ہیں اور جو عورت خاوند کی مرضی سے زیارت کو جائے تو وہ خاوند بھی ملعون ہے۔ ہاں قبر کے پاس جا کر بیٹھ جانا یا اتفاقاً تکیہ لگا لینا مرد کے لیے جائز ہے۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا۔ اس کو مالک نے بلاغاً روایت کیا ہے۔[2]
قبرستان میں نماز پڑھنا:
14۔قبرستان اور حمام میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے اس کو ابو سعید رضی اللہ عنہ نے مرفوعاً بیان کیا ہے۔ اس کو ترمذی و ابوداود اور دارمی نے روایت کیا ہے۔[3]
زیارتِ قبور کا مقصد:
حدیثِ ابن مسعود رضی اللہ عنہ میں فرمایا ہے کہ تم قبروں کی زیارت کرو، کیونکہ یہ دنیا سے بے رغبت کرتی ہیں اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔ اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔[4]
معلوم ہوا کہ جس زیارت میں یہ فائدہ نہ ہو وہ منع ہے۔ جاہل لوگ زیارت میں طواف کرتے
[1] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۳۲۳۶) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۲۰) سنن النسائي (۴/۹۴)
[2] موطأ الإمام مالک (۱/ ۲۳۳)
[3] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۱۷) سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۹۲) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۷۴۵) سنن الدارمي، رقم الحدیث (۱۳۹۰)
[4] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۵۷۱)