کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد2) - صفحہ 100
شہید اور شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہما اللہ نے فرمائی، ان کے سامنے دو مقصد تھے، ہندوستان میں ایسے نظام کا قیام ونفاذ جس کی اساس قرآن وحدیث پر ہو اور دوسرا کتاب وسنت کے فہم میں جمود اور توحید خالص کے راستے میں حائل بدعات ورسوم کو ہٹا کر اس کی تعلیمات کو شائع کرنا۔ پہلا مسئلہ دین کے ساتھ سیاسی بھی تھا، اس لیے اس کے پورے ماحول پر سیاست محیط ہو گئی اور دوسرے مقصد کے لیے مولانا محمد اسماعیل شہید ۔قدس اللّٰہ روحہ۔ نے کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ اور ’’تذکیر الاخوان‘‘ لکھیں اور شائع فرمائیں۔ ’’تذکیر الاخوان‘‘ گو دوسرے کے نام سے شائع ہوئی، مگر تحریک کی معنویت کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ تذکیر، تقویۃ الایمان ہی کا دوسرا حصہ ہے۔ دونوں کتابوں کی بڑی کثرت سے اشاعت ہوئی۔ ان کی روشنی نے لاکھوں دلوں کو منور کیا اور کروڑوں مردہ روحوں کو ان سے اللہ تعالیٰ نے زندگی بخشی۔ تحریک کا یہ پہلو کافی کامیاب رہا۔ جاننا چاہیے کہ توحید وسنت کی اشاعت اور جمود کے خلاف ہزاروں زبانیں جو نغمہ سرا ہیں، ان ہی کی بدولت ہیں۔ ’’تقویۃ الایمان‘‘ کی زبان، اندازِ بیان، پھر نصوصِ قرآن و حدیث کے مضامین کی دل نواز چاشنی نے فضا کو ایسا مسحور اور اذہان کو اتنا متاثر کیا کہ ہزاروں دلوں نے اس کی تعلیمات کو قبول کیا۔ لاکھوں کی تعداد میں یہ کتاب ہر سال شائع ہوتی اور گھروں میں پڑھی جاتی ہے۔ [1]
مولانا عطاء اللہ حنیف بھو جیانی رحمہ اللہ (م ۱۹۸۷ء) فرماتے ہیں کہ خانوادۂ ولی اللہ کے گلِ سر سبد مولانا محمد اسماعیل شہید ۔قدس اللہ روحہ و نور ضریحہ۔ کی پردرد، پر تاثیر، سراپا اخلاص، ایمان پرور، نکتہ آفریں اور مقبول خاص وعام تالیف ’’تقویۃ الإیمان‘‘ جب تیرھویں صدی کے پانچویں عشرے (۱۲۴۰ھ تا ۱۲۵۰ھ) میں منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوئی اور اس وقت کے احوال و ظروف کے مطابق اشاعت پذیر ہوئی تو بہ مصداق:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے [2]
زیر نظر کتاب ’’دعوۃ الداع‘‘ اسی ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے باب دوم کے اردو ترجمے بہ نام
[1] مقدمہ ’’اکمل البیان فی تائید تقویۃ الایمان‘‘ (ص:۲۴) مجلّہ یادگار کانفرنس پاکوڑ مطبوع باہتمام مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ہند (ص:۱۰۵-۱۰۶)
[2] یاد گار مجلہ اہلِ حدیث مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ہند (ص: ۱۰۶)