کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 84
مضاف کروں تو بھی یہ اضافت درست ہے۔[1] چنانچہ اکثر اضافات ائمۂ علم کی طرف سلفِ امت کے اسی قبیل سے تھے۔‘‘ (ص: ۱۳)
’’مشکل تو یہ ہے کہ میں تو دلیل کو مذہب کہتا ہوں نہ تقلید کو، اور لوگ اعتراض مجھ پر ازروئے تقلید کرتے ہیں ۔‘‘ (ص: ۲۶)
’’ائمۂ سلف پر طعن مخالفتِ سنت کی کرنا انصاف کا خون بہانا ہے، ہاں جو مقلد ان کے بعد وضوحِ دلیلِ کتاب و سنت کے تقلیدِ رائے بحت پر جامد ہیں ، ان کو خاطی سمجھتا ہوں ۔‘‘ (ص: ۲۷)
’’مجھے یہ بات معلوم ہے کہ اﷲ و رسول کے سوا کسی کا اتباع کسی شخص پر امتِ اسلام میں سے واجب نہیں ہے اور اسی وجہ سے سارے سلف تقلیدِ رجال سے منع کرتے آئے ہیں ۔‘‘ (ص: ۱۱۸)
’’رجماً بالغیب مجھ پر یہ طوفان باندھا گیا کہ میں خدانخواستہ حق میں ائمہ اربعہ کے عموماً اور حق میں امام اعظم رضی اللہ عنہ کے خصوصاً بے ادب نا مہذب ہوں [2] حالانکہ یہ نرا افترا ہے، اس کی تکذیب کے لیے میرا رسالہ ’’جلب المنفعۃ‘‘ نام بس کرتا ہے۔ اگر میں ایسا ہوتا تو اپنی کتبِ فقہ میں ہرگز کسی مسئلہ حنفی کی ترجیح نہ کرتا ۔۔۔ بے شبہ میں کسی کی رائے مجرد و اجتہاد کا مقلد نہیں ہوں ، جب تک کہ اس کو موافق دلیل و سنت کے نہ کر لوں ۔ خواہ وہ علم ظاہر سے علاقہ رکھتا ہو یا علم باطن سے ۔۔۔۔‘‘ (ص: ۱۱۹)
’’پھر مجھ سا شخص جو بعد حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی عالم اور امامِ امت کی تقلید کا وجوباً قائل نہیں ہے، وہ صاحبِ کتاب التوحید(شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ)کی تقلید کیوں کرنے لگا۔‘‘ (ص: ۱۲۰)
[1] دیکھیے مقلد ہونے کی حیثیت سے تو نواب صاحب کسی امام کی طرف اپنے کو منسوب کرنا درست نہیں سمجھتے، البتہ دوسرے اعتبارات سے اس کو صحیح سمجھتے ہیں ، لیکن اس میں بھی حنفی مذہب کی خصوصیت نہیں ہے، چاروں اماموں اور چاروں مذہبوں کو وہ ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں ۔
[2] سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر سیرت والا جاہی کا یہ بیان صحیح ہے کہ نواب حنفی مذہب تھے اور ہمیشہ مذہب حنفی کی طرف اپنے کو منسوب کرتے تھے تو پھر ان پر یہ طوفان کیسے باندھا گیا کہ وہ امام ابو حنیفہ کے حق میں بے ادب نا مہذب ہیں ؟!