کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 65
پہن لیا کرتے تھے۔ البتہ اس کا خیال رہتا تھا کہ لباس خوش وضع اور خوش قطع ہو اور عطر سے معطر ہو۔ عیدین کو عربی لباس زیب تن فرماتے تھے۔ خود فرماتے ہیں : ’’عربیت نسب اور عربیت زبان دونوں چیزیں ہمارے لیے باعثِ فخر ہیں ۔‘‘ کرتہ گھنڈی دار نیچی چولی کا، دہلی کی وضع کا انگرکھا۔ دہلی کی وضع ہی کی گول ٹوپی اور قدرے تنگ پانچے کا پاجامہ زیب تن فرماتے تھے۔ جوتا زیادہ تر امرتسر کا پنجابی ساخت کا استعمال کرتے تھے۔ ذہن کے صاف اور دل کے غنی تھے۔ شیریں بیان، شریف الطبع اور حسنِ اخلاق کا عمدہ ترین نمونہ تھے۔ حیا اور تواضع میں ان کے دور میں کوئی شخص ان کا ثانی نہ تھا۔ حلم اور بردباری غصے پر غالب تھی۔ بے حد منصف مزاج تھے۔ اپنے مخالفین سے نہایت نرمی سے پیش آتے تھے۔ اہلِ علم کی بہت ہی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ خود ’’إبقاء المنن‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’چوں کہ اﷲ تعالیٰ نے حسنِ عمل اور سوے عمل کو میزانِ سعادت و شقاوت قرار دیا ہے، اس لیے میرا دل یہی چاہا کرتا ہے کہ مجھ سے وہ فعل ظہور میں آئے، جو میرے معبودِ حقیقی وحدہ لا شریک کو پسندیدہ ہو۔‘‘ ’’إبقاء المنن‘‘ میں مزید فرماتے ہیں : ’’صحبتِ اہلِ جہاں سے تہہ دل سے بے زار رہتا ہوں اور اہلِ علم کی صحبت کو دوست رکھتا ہوں ۔ ایسے لوگوں کی صحبت ہو، جو مذاکرۂ علمی یا ذکرِ الٰہی کریں ۔‘‘ اپنے احباب کے ساتھ بہت ہی خلوص و محبت کا برتاؤ کرتے تھے۔ احسان کے بدلے میں دوگنا چوگنا احسان کرنے کی سعی فرماتے۔ اکثر نمازِ جمعہ خود پڑھایا کرتے۔ رمضان المبارک میں تراویح ہمیشہ آٹھ رکعت پڑھتے اور نمازِ تہجد بارہ رکعت۔ نمازِ فجر کے بعد تلاوتِ قرآن اور مختلف ادعیہ کی پابندی کرتے۔ تقویٰ و تورّع کے اوصاف ان کے مزاج میں راسخ ہوچکے تھے۔ شرم و حیا کا اتنا غلبہ تھا کہ کسی بڑے یا چھوٹے مرتبے کے آدمی سے آنکھ ملا کر بات نہیں کرتے تھے۔ دوسرے سے گفتگو کرتے وقت نگاہ ہمیشہ نیچی رکھتے۔