کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 594
اس کا شمار سنتِ قائمہ میں نہیں ہو گا۔ فریضۂ عادلہ ورثا کے سہام ہیں ۔ قضا کے ابواب کو بھی اس میں شمار کیا جاتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کے تنازعات عدل سے طے کرنا۔ یہ تینوں چیزیں ایسی ہیں کہ ان سے شہر کا خالی ہونا حرام ہے، کیونکہ دین انھیں تین چیزوں پر موقوف ہے، ان کے سوا بقیہ کا شمار زائد میں ہوتا ہے۔ اس تفصیل کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شہر میں ایک ایسے شخص کا ہونا ضروری ہے جو محدث، مفسر اور فرائض داں ہو۔ جو شہر عالمِ کتاب و سنت یا عارفِ احکامِ سہام سے خالی ہو، وہ شہر علم و برکت سے محروم ہے۔ اہلِ رائے اور فقہا چاہے جتنے ہوں ، وہ قابل اعتنا نہیں ۔ ان کا شمار اہلِ علم میں نہیں ہوتا۔ عالمِ قرآن و حدیث سے کسی شہر کا خالی ہونا حرام تھا، لیکن اب حلال ہو گیا ہے۔ إنا للّٰہ۔۔!! ہر بدعت گمراہی ہے: ہر بدعت علی الاطلاق گمراہی ہے، یہ احادیث مستفیضہ سے ثابت ہے۔ بدعت کی رائج تقسیم کسی حدیث سے ثابت نہیں ، اسی لیے علماے کاملین نے اس تقسیم کا انکار کیا ہے۔ شیخ احمد سر ہندی مجدد الف ثانی بھی اس تقسیم کے منکر ہیں ۔ اسی طرح علامہ شوکانی رحمہ اللہ اور جمہور محدثین کا یہی خیال ہے۔ جن علما کے یہاں تقسیم بدعت کا خیال پایا جاتا ہے، ان کے نزدیک سنت قلیلہ بدعتِ حسنہ سے بہتر ہے۔ سنتیں اس قدر ہیں کہ اگر کوئی سب پر عمل کرنا چاہے تو مشکل ہے، پھر بدعت پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس بدعت کے عوض اگر ادنا سنت بجا لائی جائے خصوصاً اس دور میں تو شہید کا اجر ملتا ہے۔ بدعت کیسی ہی اچھی کیوں نہ ہو، اس پر مواخذہ ہونے والا ہے۔ جس کو عمل کی طاقت ہے اور فرصت بھی ہے، اسے اپنے اوقات کو سنت پر عمل کرنے میں لگانا چاہیے۔ اسی سے بازی جیتی جا سکتی ہے۔ غفلت کی صورت میں سنت زندہ کرنے کے اجر سے محرومی ہے۔ ہر بدعت ایک سنت ختم کر دیتی ہے، گو کسی کو معلوم نہ ہو۔ اصحابِ حدیث کا مذہب ہے کہ ہر بدعت، خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، گمراہی ہے۔ افضل التابعین: اہلِ مدینہ کہتے ہیں کہ افضل تابعی سعید بن المسیب رحمہ اللہ تھے۔ اہلِ بصرہ کے نزدیک حسن بصری رحمہ اللہ اور اہلِ کوفہ کے نزدیک اویس قرنی رحمہ اللہ ہیں ۔ بعض نے کہا کہ صحیح قول آخری ہے، کیونکہ صحیح مسلم میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت آئی ہے: