کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 591
جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی ہے۔ معلم شرائع علیہ السلام نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ فرقہ ناجیہ وہ گروہ ہے جو میرے اور میرے اصحاب کی راہ پر ہے۔ دین سے جس شخص کو ادنا لگاؤ ہو، وہ معلوم کر سکتا ہے کہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم اور اصحابِ مجتبیٰ کا کیا رنگ ڈھنگ تھا؟ ان کے اقوال، احوال اور افعال ہم تک پہنچ چکے ہیں ۔ ان کے کھانے، پینے، جاگنے، سونے، چلنے، پھرنے، عبادت کرنے اور معاملہ کرنے کا حال ہم کو معلوم ہے۔ گویا ہم آج ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ پھر جس کسی کو اللہ نے انصاف پسند بنایا ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کی جو راہ ہے اور جس کی تفصیل سنت میں موجود ہے، اگر سنت کے آئینے میں وہ لوگوں کے اعمال و افعال کا جائزہ لے تو فیصلہ کر سکتا ہے کہ مبتدع کون ہے اور متبع کون ہے؟ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ’’حجۃ اللّٰه البالغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’فرقہ ناجیہ وہ گروہ ہے جس نے اپنے عقیدہ و عمل کو ظاہر کتاب و سنت سے اخذ کیا ہے۔ جمہور صحابہ و تابعین اسی طریق پر گزرے ہیں ۔ غیر منصوص مسائل میں ان کا باہمی اختلاف جو بعض ادلہ سے استدلال یامجمل کی تفسیر میں تھا، اس میں کچھ حارج نہیں ۔ فرقہ غیر ناجیہ وہ گروہ ہے جس نے اپنا عقیدہ سلف کے خلاف یا کوئی عمل ان کے اعمال کے خلاف کیا ہے۔‘‘[1] امیر صنعانی رحمہ اللہ کی وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ ناجیہ جماعت اہلِ سنت یعنی اصحابِ حدیث ہیں ، کیونکہ ان کا عقیدہ و عمل (( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَ أَصْحَابِيْ )) [2] [جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں ] کے مطابق ہے۔ باقی جتنے فرقے ہیں ، گو وہ کفر سے علاحدہ ہوں ، مگر بدعت سے خالی نہیں ہیں ۔ مانا کہ جن کی بدعت سرحد کفر تک نہیں پہنچی ہے، کبھی وہ نارِ جہنم سے آزاد ہو جائیں گے، لیکن ان لوگوں کے برابر ہر گز نہیں ہو سکتے جو خالص متبع قرآن و سنت ہیں ۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے کہ دو آدمی عبادت کرتے ہیں ۔ ایک کو لذت ملتی ہے اور دوسرے کو کچھ حلاوت نہیں ملتی۔ یہ دونوں اگرچہ عبادت میں اخلاص کے سبب جنت میں جائیں گے، مگر جنت کا جو لطف صاحبِ لذت پائے گا، وہ اس بے حلاوت کو نہ ملے گا۔
[1] حجۃ اللّٰه البالغۃ (۱/۳۵۹، ۳۶۰) [2] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۴۱)