کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 586
[میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا] اسلامی تاریخ کا مطالعہ بھی یہی بتلاتا ہے کہ ہر عصر میں زمین کے کسی نہ کسی گوشے میں کوئی نہ کوئی مجتہد ضرور گزرا ہے۔ خصوصاً زمرۂ علماے حنابلہ اور شافعیہ میں اور علی الخصوص عارفانِ کتاب و سنت میں ۔ اجتہاد کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ سوائے ائمہ اربعہ کے کسی کے ہاتھ نہ لگی ہو۔ حنفیہ کو چھوڑ کر ائمہ ثلاثہ کے مقلدین میں ہمیشہ مجتہد مستقل اور مجتہدفی المذہب ہوتے رہے ہیں ۔ ملک یمن ہمیشہ اہلِ اجتہاد کا گڑھ رہا ہے، اس ملک میں مقلد کمتر پیدا ہوئے اور مجتہد اکثر ظاہر ہوئے ہیں ۔ وہ لوگوں کو دعوت دیتے تھے کہ کتاب و سنت کا اتباع کریں ۔ وہ اجتہاد کرتے یا روایات کے اندر ترجیح و تطبیق کر کے جمع کی صورت نکالتے۔ وہ رائے، قیاس اور غیر کے اجتہاد پر قانع نہیں ہوتے اور تقلید کو طریقۂ اسلام کے خلاف سمجھتے تھے۔ متاخرین اہلِ علم کو اجتہاد کے جو اسباب و ذرائع میسر ہیں ، وہ اگلوں کو میسر نہیں تھے۔ پھر اجتہاد متقدمین پر ختم کر دینا انصاف کے خلاف نہیں تو پھر اور کیا ہے؟ اس سے بڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اجتہاد کے شرائط اور ان سے بڑھ کر اجتہاد کی جو سہولتیں اصحابِ صحاح ستہ اور ائمہ کو حاصل تھیں ، وہ ائمہ اربعہ میں کسی کو بھی حاصل نہیں تھیں ۔ امام احمد کو علم حدیث دیگر ائمہ کی بہ نسبت زیادہ حاصل تھا۔ بخاری، مسلم اور ترمذی اس علم میں ان سے بھی بڑھ کر تھے۔ فرق صرف شرفِ تقدم زمانہ اور شرفِ کمالِ علم کا ہے۔ بے شک اولین سابقین کو متاخرین پر فضیلت حاصل ہے، مگر اس فضل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر مسلمان ان کی غلطی میں بھی ان کی پیروی کرے۔ الٰہی دیدۂ تحقیق دہ ہر یک مقلد را چو عینک تابکے ہر سو بچشم دیگراں بیند [یا الٰہی! ہر مقلد کو چشمِ تحقیق عطا فرما، وہ مقلد جو عینک کی طرح دوسروں کی آنکھ سے ہر طرف نگاہ کرتا ہے] تقلید: تقلید کے سلسلے میں اہلِ علم کا اختلاف ہے۔ ایک جماعت نے کہا ہے کہ بالکل جائز نہیں ، بلکہ امام مالک اور جمہور علما کے نزدیک غیرمنصوص مسائل میں اجتہاد کرنا واجب ہے۔ یہ لوگ تقلید کو باطل کہتے ہیں ۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ عدمِ تقلید پر اجماع ہے۔ شوکانی نے ’’القول المفید‘‘ میں