کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 564
بائیں ہاتھ میں ملے گا یا پسِ پشت۔ رب تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَ نُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا﴾ [بني إسرائیل: ۱۳] [ہم ان کے لیے قیامت کے دن ایک کتاب نکالیں گے، وہ اسے پھیلایا ہوا پائے گا] اس آیت کے علاوہ اعمال نامہ ملنے کی دلیل حدیثِ سجلات بھی ہے۔[1] معتزلہ اس کا بھی انکار کرتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ایک عبث بات ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا خیال قطعاً غلط ہے۔ حدیث اور قرآن سے اعمال نامے کا تلنا، اعمال نامے کا تقسیم ہونا، حساب ہونا اور پل سے گزرنا ثابت ہے۔ ان کا انکار کرنا کفر ہے۔ ان کی تاویل بھی نہیں کی جا سکتی، کیونکہ تاویل کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب ظاہری معنی اختیار کرنا درست نہ ہو، لیکن یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ قادر و قدیر ان تمام امور پر قدرت رکھتا ہے۔ شفاعت: شفاعت حق ہے۔ یہ شفاعت اس کے لیے ہو گی جس کے لیے اجازت مل جائے گی۔ اس کے مستحق اہلِ کبائر ہوں گے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پہلے شافع اور مشفع ہوں گے۔ جس جگہ شفاعت کی نفی آئی ہے، اس سے مراد بے اذن شفاعت ہے۔ یعنی بغیر اذنِ الٰہی کے کوئی نبی ولی کسی کے لیے شفاعت نہیں کر سکتا۔ رب تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا﴾ [النبأ: ۳۸] [مگر جس کے لیے رحمن اجازت دیدے اور وہ صحیح کہے گا] معتزلہ شفاعت کا انکار کرتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ جب عفو و مغفرت جائز نہیں ہے تو شفاعت بھی جائز نہ ہو گی۔ لیکن یہ حدیث: (( شَفَاعَتِيْ لِأَھْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِيْ )) [2] [میری شفاعت میری امت کے اہلِ کبائر کے لیے ہو گی]
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۳۹) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۳۰۰) [2] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۷۳۹) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۴۳۵)