کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 56
گیا اور اصلاحی کمیٹیاں بنائی گئیں ۔ چوری، ڈاکا، راہ زنی اور ہر قسم کی برائی کے سدباب کے لیے بھرپور کوششیں کی گئیں ۔ ریاست کو دار الامن بنانے کی سعی کی گئی۔ ہندو مسلم اتحاد کو ضروری قرار دیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے ان تمام اعمالِ خیر میں نواب صاحب رحمہ اللہ کو کامیابی عطا فرمائی۔ علما و طلبا میں حفظِ حدیث کا جذبہ اور شوق پیدا کرنے کی غرض سے یہ بہت بڑا اقدام کیا گیا کہ جو شخص صحیح بخاری حفظ کرے گا، اسے ایک ہزار روپے انعام دیا جائے گا اور جو صاحب بلوغ المرام یاد کریں گے، ان کی خدمت میں ایک سو روپیہ بہ صورتِ انعام پیش کیا جائے گا۔ چنانچہ بعض حضرات نے یہ انعامات حاصل کیے۔ ایک طالب علم عبد التواب غزنوی علی گڑھی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کے حفظ کا سلسلہ شروع کیا تو نواب صاحب رحمہ اللہ نے ان کا تیس روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا۔ بعد میں مولانا عبد التواب غزنوی علی گڑھی رحمہ اللہ نے جلیل القدر عالم کی حیثیت سے شہرت پائی۔ ان سطور کے راقم کو ان کی زیارت کا شرف حاصل ہے۔ اس بے حد سستے زمانے میں ہزار روپے بہت بڑی رقم تھی۔ آج کل کے لاکھ روپے سے بھی شاید زیادہ ہوگی۔ نواب صاحب نے مختلف اسلامی ممالک سے کثیر رقم خرچ کر کے تفسیر ابن کثیر، صحیح بخاری کی شرح فتح الباری، امام شوکانی کی تصنیف نیل الاوطار کے قلمی نسخے حاصل کیے اور پھر ان ضخیم کتابوں کو اپنے خرچ سے طبع کرایا اور اہلِ علم اور مختلف مدارس میں انھیں مفت تقسیم کیا۔ اس سے قبل یہ کتابیں برصغیر میں دست یاب نہ تھیں ۔ نواب صاحب رحمہ اللہ کی کوشش اور زرِکثیر کے صرف سے یہ عظیم الشان کتابیں اس خطۂ ارض میں پہنچیں اور عام ہوئیں ۔ تصانیف: خود نواب صاحب رحمہ اللہ نے نہایت اہم کتابیں تصنیف کیں ۔ انھوں نے عربی، فارسی، اردو تینوں زبانوں میں لکھا اور بہت لکھا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، ان کی چھوٹی بڑی تصانیف کی تعداد ۲۳۰ کے قریب ہے، جن میں ایک سو سے زیادہ کتابیں بڑی ضخیم ہیں اور کئی کئی جلدوں پر محیط ہیں ۔ نواب صاحب نے قرآنِ مجید سے متعلق جو کتابیں تصنیف کیں ، ان کا تذکرہ ہماری کتاب ’’برصغیر کے اہلِ حدیث خدامِ قرآن‘‘ میں ہوچکا ہے۔ یہاں ان کی ان تصانیف کا ذکر کیا جاتا ہے، جن کا تعلق حدیث شریف سے ہے۔ لیکن اس موقع پر یہ عرض کرنا شاید مناسب ہوگا کہ چند ایک کے