کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 554
خلفاے ثلاثہ کی اولاد میں فضیلت حاصل ہے، کیونکہ انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی قرابت داری کا شرف حاصل ہے، اس لیے یہ مقدس اور پاک اہلِ بیت میں شمار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابیں : اللہ تعالیٰ کی کتابیں وہ ہیں جن کو پیغمبروں پر آسمان سے زمین پر اتارا گیا ہے۔ ان کتابوں میں امر ونہی اور وعد و وعید سب کچھ ہے۔ تمام کتابوں میں افضل قرآن عظیم ہے۔ یہ کلام اللہ تعالیٰ کی صفتِ قدیم ہے۔ جتنی آسمانی کتابیں اتریں ، یہ کتاب ان سب کا خلاصہ اور فصل الخطاب ہے۔ یہ افضل رسل پر نازل ہوئی۔ اعجاز نظم اسی کا خاصا ہے۔ دوسری کتابوں میں یہ خصوصیت نہیں ہے۔ عقیدہ وعمل میں اس کتاب کو حرزجاں بنانا فرض عین ہے۔ اسکی مخالفت صریح کفر اور واضح گمراہی ہے۔ اس کے ہوتے کسی آسمانی کتاب کا پڑھنا دیکھنا (بہ نظر استحسان و تعبد) درست نہیں ۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے تورات دیکھی تو چہرہ مبارک غصے سے سرخ ہو گیا۔ فرمایا: (( لَوْ کَانَ مُوْسیٰ حَیًّا مَا وَ سِعَہٗ إِلَّا اتِّبَاعِيْ )) [1] [اگر موسی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اطاعت کے سوا کچھ نہ بنتا] جب تو رات اور انجیل کا یہ حکم ٹھہرا تو پھر اور کسی کتاب کا کیا ذکر ہے۔ خصوصاً اس کتاب کا جو آسمان سے آئی ہو نہ کسی پیغمبر پر اتری ہو، اسے اسی زمین پر کسی مولوی ملا، مشائخ، فقیہ، درویش یا شاعر نے گھڑا ہو۔ اس میں اپنی عقل کی کار روائی کی ہو، اس بنا پر اس میں سب یا اکثر یا بعض مطالب کتاب و سنت کے خلاف ہوں ۔ ظاہر ہے اس کو پڑھنا، اس پر عمل کرنا اور اس کے مطابق عقیدہ رکھنا، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کرنا ہے۔ آخر یہ کیسے درست ہو سکتا ہے؟ معلوم نہیں یہ کیسا ایمان، کس طرح کا احسان اور کس طرز کا اسلام ہے؟ إنا للّٰہ۔۔!! یہ سیکڑوں عقلی فتاوے اور فقہ جن میں لاکھوں مسئلے بے دلیل لکھے گئے ہیں ، کیا ان پر چلنا اللہ کے دین پر چلنا ہے یا ابلیس لعین کے آئین پر؟ ہر امتی کا قول و عمل اسی وقت لائقِ سماعت اور مستحقِ التفات ہو سکتا ہے، جب اس کے پیچھے کتا ب و سنت کے نصوص ہوں ، جو اس کی تائید کرتے ہوں ۔ تورات موسیٰ علیہ السلام پر اتری تھی، اللہ نے اس کو اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ اتنی بڑی کتاب تھی کہ
[1] مسند أحمد (۳/ ۳۸۷) شعب الإیمان للبیھقي (۱۷۵) اس کی سند میں ’’مجالد بن سعید‘‘ راوی ضعیف ہے۔