کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 553
ہیں ۔ ان کو برا بھلا کہنا اور گالی دینا حرام ہے اور ان کی تعظیم کرنا واجب ہے۔ اللہ ان روافض، خوارج اور نواصب سے سمجھے جنھوں نے صحابہ خصوصاً شیخین اور عائشہr کی بے آبروئی میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا ہے، حالانکہ مسلمان کی جان و مال اور آبرو کا حکم یکساں ہے۔ آبرو ریزی خونریزی کے برابر ہوتی ہے۔ جو حکم ان کفار کا ہے، جنھوں نے صحابہ کو شہید کیا تھا، وہی حکم ان تبرا کرنے والوں کا ہے۔ درحقیقت یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کے قاتل ہیں ، کیونکہ زبان کا زخم سنان کے زخم سے کاری ہوتا ہے۔ ان لوگوں کا کفر اس قرآنی آیت سے نکلتا ہے: ﴿ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ﴾ [الفتح: ۲۹] [تاکہ کفار کو ان سے جلائے] اگر کسی شخص کو کسی صحابی، خواہ کبیر ہو یا صغیر، امیرہو یا فقیر، پر غصہ آتا ہے تو وہ کفار کا بھائی ہے۔ اس صدی میں ایسے جاہل بھی پیدا ہوئے ہیں جو دعوی تو سنی مذہب پر کار بند ہونے کا کرتے ہیں ، مگر زبیر، طلحہ اور عائشہ] پر علی رضی اللہ عنہ سے بغاوت کا الزام لگاتے ہیں ۔ اب ایسوں کے بارے میں سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ لعنۃ اللہ علی الکاذبین و الظالمین!! عشرہ مبشرہ اور دیگر صحابہ: اصحابِ حدیث اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ عشرہ مبشرہ قطعی جنتی ہیں ۔ اسی طرح فاطمہ، خدیجہ، عائشہ، حسن، حسین، صحابہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی تعظیم کرنا اور ان سے محبت کرنا، اسلام میں ان کے عظیم مرتبے کا اقرار کرنا، اہلِ بدر اور اہلِ بیعت الرضوان کو جنتی جاننا حق اور لازم ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ اہل بدر تین سو سے زائد تھے۔[1] سابقین اولین انصار ہوں یا مہاجرین، باقی صحابہ سے افضل ہیں ۔ قرآن کریم میں اس کی صراحت موجود ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صحابہ میں سب سے افضل بالترتیب خلفا ہیں ، پھر بقیہ عشرہ مبشرہ، پھر اہلِ بدر، پھر اہلِ احد، پھر باقی اہلِ بیعت الرضوان، پھر بقیہ صحابہ۔ حجۃ الوداع میں صحابہ کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار یا کچھ زائد تھی۔ صحابہ کرام کی اولاد کی فضیلت علم و تقویٰ پر موقوف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صحابہ کی اولاد کی فضیلت صحابہ کی فضیلت کے تابع ہے۔ جن کے آبا صحابہ کرام میں زیادہ افضل ہیں ، وہی سب سے افضل اولادِ صحابہ میں بھی ہوں گے، اسی طرح ترتیب وار ان کی فضیلت مانی جائے گی، البتہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد کو
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۷۴۱)