کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 552
حسن رضی اللہ عنہ چھے ماہ۔ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہجرت کے تیسویں سال ہوئی۔ اس سے یہ بات نکلی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور جو لوگ ان کے بعد امیر ہوئے، وہ خلیفہ نہ تھے، ملوک و امرا تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم پر افضلیت تمام وجوہ سے نہ تھی کہ حسب ونسب، شجاعت وقوت اور علم وغیرہ کو بھی شامل ہو، آپ کی افضلیت اس بنا پر تھی کہ آپ سے اسلام کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو شیخین پر مقدم سمجھنا جمہور علما کے مسلک کے خلاف ہے۔ ابو الطفیل صحابیِ رسول رضی اللہ عنہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل مانتے تھے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت قطعی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنی زندگی ہی میں نماز میں اپنا نائب بنایا تھا اور یہ بات دین سے ثابت ہے کہ امامت کا مستحق افضل ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی امامت مدینہ میں اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں ہوئی۔ ایک بار عمر رضی اللہ عنہ آگے بڑھ گئے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹ گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا: (( یَأْبیٰ اللّٰہُ وَ الْمُوْمِنُوْنَ إِلَّا أَبَا بَکْرٍ )) [1] [اللہ اور مومنین کو صرف ابو بکر منظور ہیں ] غرض کہ اشاعتِ حق میں یہی دو بزرگ سب سے برتر سمجھے جاتے ہیں ۔ یہاں دیکھا ہی یہی جاتا ہے کہ انسان میں اسلام کی اشاعت کس نے زیادہ کی ہے۔ اللہ کے دینِ حق اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتِ مطہرہ کو کس نے سب سے زیادہ پھیلایا ہے۔ کفر و فسق کس نے زیادہ مٹایا۔ جس سے یہ کام ہوا، بلاشبہہ وہ ان لوگوں سے بہتر ہے جن سے یہ کام نہیں ہوا یا کم ہوا۔ یہی بات امرا، روسا اور ملوک میں قابل التفات ہوتی ہے کہ جو ان میں زیادہ دین دار، حق پرست، متبع سنت، بدعت ختم کرنے والا، فسق و فجور اور ظلم و جور دور کرنے والا ہو، وہ ان سے افضل ہے جو ان امور میں ان کے برابر نہ ہوں یا ان سے کم ہوں ۔ وہ لوگ جو زندگی میں شتر بے مہار ہیں ، ان کی بات جدا ہے، یہ امت کے بد ترین لوگ ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے دو رخ ہیں ، ایک میں وہ اللہ سے لیتے ہیں اور دوسرے میں وہ مخلوق کو دیتے ہیں ۔ جو خصوصیت اور کمال شیخین کو حاصل تھا، وہ دوسروں کو حاصل نہیں تھا۔ شیخین کو اعطاے خلق، تالیفِ قلب، لوگوں کو متحد رکھنے اور تدابیرِ جنگ میں امتیاز حاصل تھا۔ یہ امتیاز ان دونوں کے سوا دوسروں کے پاس نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وزیر کہا جاتا ہے۔ باقی صحابہ کا ذکرِ خیر ہمارے لیے لازم ہے، کیونکہ سارے صحابہ دین میں ہمارے امام اور پیشوا
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۳۸۷)