کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 550
تھے۔ نہایت درجہ ملائم رفیق اور شفیق تھے۔ ان کی شریعت سراپا فضل و احسان تھی، جس میں وبال و قتال کا نام بھی نہ تھا، بلکہ ان پر مقاتلہ کرنا حرام تھا۔ انجیل مقدس میں ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک رخسار پر طمانچہ مارے تو تو منہ پھیر دے کہ وہ تیرے دوسرے رخسار پر بھی طمانچہ مار لے اور جو کوئی تیرا دامن پکڑے تو اس کو اپنی چادر دے دے، جو تجھ کو ایک میل تک بیگار میں لے جائے تو اس کے ہمراہ دو میل تک چلا جائے۔[1] رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم دونوں نبیوں کی صفات کے جامع تھے اور آپ کی شریعت دونوں شریعتوں کی خصوصیات کی حامل ہے۔ اصحابِ رسول: اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم خیارِ امت اور ابرارِ ملت تھے۔ ان کے فضائل و مناقب میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں ۔ یہ اجرو ثواب میں ساری امت سے افضل ہیں ۔ اگر کوئی شخص پہاڑ برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو پھر بھی وہ ان کے نصف سیر جو کو نہیں پہنچتا ہے۔[2] حدیثِ مصطفی ہے: (( خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِيْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ )) [3] [میرا زمانہ بہترین زمانہ ہے، پھر ان کا جو میرے بعد ہوں گے، پھر ان کا جو ان کے بعد ہوں گے] اس سے تابعین پر صحابہ کی فضیلت اور تابعین کی فضیلت تبع تابعین پر ثابت ہوتی ہے۔ انھوں نے قرآن و سنت کو زبانِ نبوی سے بلا واسطہ سنا ہے۔ وہ آپ کے ساتھ سفر و حضر، شدت و آرام اور غزوات میں رہے ہیں ۔ اپنے جان و مال اور اولاد کو راہِ الٰہی میں بے دریغ فدا کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں کوئی ان کی برابری نہیں کر سکتا۔ شیعہ، خارجی، ناصبی اور رافضی ان کے دشمن ہیں ۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ تمام امت پر ان کی یہ فضیلت من حیث المجموع ہے، فردی حیثیت سے نہیں ۔ اس کی دلیل سنن ترمذی کی یہ روایت ہے:
[1] انجیل متی (باب: فقرہ: ۳۹، ۴۱) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۴۷۰) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۵۴۰) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۵۰۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۵۳۳) ان مصادر میں یہ حدیث بایں الفاظ (( خیر الناس قرني ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم )) مروی ہے۔