کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 535
اصحابِ حدیث کی یہ رائے ہے کہ انسان کا انجام کارمبہم ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب خاتمہ ہوگا، بھلا یا برا؟ کسی کے جہنمی ہونے کا یقینی حکم لگایا جا سکتا ہے نہ جنتی ہونے کا، کیونکہ یہ غیب کی بات ہے اور غیب کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ہمیں نہیں معلوم کون انسان کس حالت میں مرے گا، اسی لیے وہ ’’أنا مومن إن شاء اللہ‘‘ کہنا صحیح سمجھتے ہیں ۔ جنھوں نے گناہ کمائے ہیں اور توبہ نہیں کی ہے، انھیں عذاب ہو گا، پھر تو حید پر ایمان اور اس میں اخلاص کی بنیاد پر جنت میں جائے گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی موحد مومن اور مخلص مسلم جہنم میں باقی نہ رہے گا۔ جو شخص کفر پر مرا ہے، وہ جہنم میں جائے گا اور عذاب سے ہر گز چھٹکارا نہ پائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جن کے لیے جنت کی گواہی دی ہے، وہ بلاشبہہ جنتی ہیں ، جیسے عشرہ مبشرہ وغیرہ رضی اللہ عنہم ۔ یہ بات کہ کسی متعین شخص پر جنتی یا جہنمی ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، درست ہے، لیکن قرائن و حالات سے اتنا معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فلاں شخص کے اعمال اہلِ جنت کے ہیں اور فلاں شخص کے اعمال اہلِ نار کے، پھر جو کوئی جن اعمال میں گرفتار ہے، اس کا وہی حکم ہے، کیونکہ جو جنت میں جانے والا ہوتا ہے، اس سے کام اچھے ہوتے ہیں اور جو جہنم میں جانے والا ہوتا ہے، وہ برے کام کرتا ہے۔ کل میسر لما خلق لہ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا﴾ [الشمس: ۸] [نفس انسانی کو اس کے فجور اور تقوے کا الہام کیا ہے] اس آیت سے یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ فاجر زیادہ اور متقی کم ہوتے ہیں ۔ فاجر اہلِ جہنم ہیں اور متقی اہلِ جنت۔ مزید فرمایا: ﴿ اِِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ* وَاِِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ﴾ [الانفطار ۱۴۔۱۳] [نیک لوگ جنت میں ہوں گے اور برے لوگ جہنم میں ] اس پیمانے پر ہر آدمی اپنے اعمالِ و افعال کو جانچ سکتا ہے کہ اس سے کس طرح کے کام ہوتے ہیں ۔ اگر اعمالِ صالحہ ہوتے ہیں تو سمجھے کہ ان شاء اللہ جنت ملے گی اور اگر فسق و فجور ہوتا ہے یا کفر و شرک اور جھوٹ کا مرتکب ہے تو سمجھ لے کہ وہ ان شاء اللہ جہنم میں جائے گا۔ واللّٰه اعلم۔ ٭٭٭