کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 533
کیونکہ یہ عقائد کا اثبات کارخانۂ عقل سے چاہتے ہیں اور ہم کو مسئلہ عقائد رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم سے معلوم ہو چکا ہے۔ ہمارے لیے رسول کے بتائے ہوئے امور پر ایمان لانا کافی ہے۔ کوئی عمل اس مسئلے کی حقیقت دریافت کرنے پر موقوف نہیں ۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے: (( اِعْمَلُوْا فَکُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہٗ )) [1] [عمل کرو، توفیق ازل سے باندازۂ ہمت ہے] خبر شارع کے بعد بھی اگر قلبِ انسانی میں کچھ خلجان باقی ہے تو اسے پھر کسی اور ایمان کا بندوبست کرنا چاہیے۔ فعل حسن سے اللہ راضی ہوتا ہے اور فعل قبیح سے ناراض۔ جس کو چاہتا ہے، سیدھا راستہ دکھلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے۔ فعل استطاعت کے بعد ہوتا ہے۔ قدرت سے فعل صادر ہونے کی یہی حقیقت ہے۔ استطاعت کا لفظ سلامتیِ آلات و اسباب اور جوارح پر بولا جاتا ہے اور تکلیف کا صحیح ہونا اسی استطاعت پرموقوف ہے۔ جو بات بندے کی طاقت و وسعت میں نہیں ہے، اس کام کا ذمے دار بھی اس کو نہیں بنایا جاتاہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا﴾ [البقرۃ: ۲۸۶] [اللہ وسعت سے زیادہ کسی کو ذمے دار نہیں بناتا] معلوم ہوا کہ انسان پر جو کچھ گزرتا ہے، وہ سب اس کی وسعت میں داخل ہے۔ اگر وہ اس کی وسعت میں داخل نہ ہوتا تو وہ بلا اس کے سر پر نہ آتی۔ یہ اس ذمے داری کو اگر اپنی طاقت سے باہر خیال کرتا ہے تو یہ اس کی سمجھ کا پھیر ہے۔ امام صابونی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے کہ اعمالِ عباد خیر ہوں یا شر، سب کا ارادہ اللہ ہی کرتا ہے۔ اگر کسی کو اس کی مشیت پر ایمان نہیں ہے تو وہ کفر کرتا ہے۔ اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی طرح کا کر سکتا تھا۔ اگر وہ چاہتا کہ کوئی اس کی نافرمانی نہ کرے تو ابلیس پیدا نہ کرتا۔ کافر کا کفر اور مومن کا ایمان سب اسی کی قضاو قدرت اور مشیت وارادے سے ہوتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ اِِنْ تَکْفُرُوْا فَاِِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلاَ یَرْضٰی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ وَاِِنْ
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۶۶۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۶۴۷)