کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 510
امام بخاری اس حدیث کو بہ طور تابع لائے ہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں : ’’جب اللہ وحی کے ساتھ کلام کرتا ہے تو اس کی آواز آسمان والے اس طرح سنتے ہیں جیسے چکنے پتھر پر کوئی زنجیر گرتی ہو، اس وقت وہ سب سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔‘‘[1] ان احا دیث کے سوا خود قرآن کریم میں اس کے لیے ’’قول‘‘ اور’’کلمات‘‘ کا لفظ آیا ہے اور ظاہر ہے کہ کلمہ اور کلام حروف سے مرکب ہوتا ہے اور تلفظ کے وقت اس میں آواز موجود ہوتی ہے۔ حنابلہ کے اس عقیدے پر تفتازانی کا یہ کہنا کہ حرف و صوت کا عقیدہ بالکل لغو ہے، بالکل نا انصافی ہے۔ علماے اہل حدیث اور حنابلہ کا یہ عقیدہ تفتازانی اور ان جیسے یونانی فلسفے کے اسیروں کے عقیدے کی طرح بے دلیل نہیں ہے۔ مذکورہ بالا قرآن و حدیث کی دلیلیں ایسی قوی اور صحیح ہیں کہ تفتازانی وغیرہ کی باتیں لائق توجہ نہیں ۔ مذکورہ دلیلیں اس طرح صحیح اور قوی ہیں جس طرح نفسِ کلام اللہ کے ثبوت کی دلیلیں قوی و صحیح ہیں ۔ جب دونوں باتوں کی دلیلیں یکساں ہیں تو پھر ایک دلیل کو ماننا اور دوسری کا انکار کرنا، انصاف کا خون کرنا ہے۔ ہمارے نزدیک جو حرف و صوت کا منکر ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نفسِ کلام کا بھی انکار کر دے اور صاف صاف کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہے نہ کلام اس کی صفت ہے۔ یہ عقل کے ہیرو دراصل اس خلجان میں پڑ گئے کہ معروف طریقہ تکلم ہی رب پاک کا بھی طریقہ تکلم ہے۔ گویا انسانی صفتِ کلام کو ان کی عقل زبردستی اللہ کے لیے ثابت مان کر استحالہ پیدا کرتی ہے اور پھر اس طریقہ کلام کو اللہ کے لیے ثابت نہیں مانتی ہے۔ یہ ہے عقل کی کرشمہ سازی اور رسائی، یہ بیچارے یہ نہ سمجھے کہ تکلم کے لیے مخارجِ حروف اور ادواتِ صوت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ آخر سنگریزوں نے تسبیح کی تھی، زہر آلود بکری بول اٹھی تھی، درخت اور پتھر نے سلام کیا تھا، جہنم ﴿ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ﴾ [قٓ: ۳۰] کہے گی۔ یہ بھی تو معہود طریقِ تکلم کے خلاف ہے، پھر اگر قادر و قدیر بھی عام طریقۂ تکلم کے بر خلاف گفتگو کرے تو اس میں مشکل کیا ہے اور لوگوں کو پریشانی کیوں ہو؟ اشعریہ اور ماتریدیہ کا وہ کلام منفی جس کا وہ عقیدہ رکھتے ہیں ، قرآن و حدیث میں سرے سے اس کا ذکر ہی نہیں ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الأسماء و الصفات‘‘ میں صفتِ کلام کے اثبات پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور صفتِ قول، تکلم، اسماع، عدم خلقِ قرآن، تلاوت و متلو کا فرق اور کلام کے حروف واصوات
[1] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۷۳۸)