کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 48
وقت اس کی عمر صرف گیارہ سال تھی۔ ریاست میں ایسی خانہ جنگی شروع ہوئی کہ ریاست کا بچنا مشکل ہوگیا۔ فیض محمد خاں کی سوتیلی ماں ماجی ممولا بڑی عقل مند اور مردم شناس عورت تھی۔ ایک برہمن زادہ اس کا پروردہ تھا، جو مسلمان ہوگیا تھا۔ ریاست کا قلم دانِ وزارت اس کے سپرد کیا گیا اور اسے ’’دیوان چھوٹے خاں ‘‘ کہا جانے لگا۔ اس نے بڑے تدبر کے ساتھ حکومت کے نظم و نسق کو چلایا اور ریاست افراتفری سے محفوظ ہوگئی۔ ۱۷۷۷ء میں فیض محمد خاں انتقال کر گیا۔ وہ بذاتِ خود بہتر کردار کا حامل تھا، لیکن وہ ایسی پریشانیوں میں گھرا کہ کوئی قابلِ ذکر کام نہ کر سکا۔
فیض محمد خاں کی وفات کے بعد اس کے بیٹے نواب حیات محمد خاں کو تختِ حکومت پر بٹھایا گیا۔ اس کے وزیر دیوان چھوٹے خاں نے بڑی خوش اسلوبی سے حکومت کے نظام کو آگے بڑھایا۔ مختلف مقامات میں مسجدیں تعمیر کرائیں ۔ مدارس قائم کیے اور علما کو ان کے مقام و مرتبے کے مطابق اعزازات سے نوازا۔
سید ذوالفقار احمد نقوی اپنی کتاب ’’تذکرۂ قضاۃِ بھوپال‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’چھوٹے خاں نے شاہ عبدالعزیز صاحب کی خدمت میں بایں مضمون عریضہ لکھا کہ آپ بھوپال تشریف لائیں ۔ بارہ ہزار کی جاگیر حاضر ہے۔ چند معتبر ادیبوں کو یہ خط اور پانچ صد روپیہ دے کر دہلی بھیجا۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ بڑھاپے میں دہلی چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔‘‘ [1]
شاہ صاحب خود تو بھوپال نہیں گئے، البتہ بعض علما کو اپنی سفارش کے ساتھ بھوپال بھیج دیا، جنھوں نے دینی و دنیوی علوم کی نشر و اشاعت میں بڑی جاں فشانی سے کام لیا۔ اس کے نتیجے میں شمالی ہندوستان کی تہذیب و تمدن میں بڑا نکھار پیدا ہوا اور بھوپال، دہلی کا ایک حصہ معلوم ہونے لگا۔[2]
۱۷۹۲ء میں ماجی ممولا اور ۱۷۹۴ء میں دیوان چھوٹے خاں وفات پاگئے تو ریاست بھوپال میں پھر خانہ جنگیوں اور سازشوں کا بازار گرم ہوگیا۔ نواب حیات محمد خاں کم زور حکمران تھا، جو حالات کا مقابلہ نہ کر سکا اور حکومت سے علاحدہ ہو کر خانہ نشینی اختیار کر لی۔ چناں چہ ۱۷۹۵ء میں ایک جلا وطن شہزادے وزیر محمد خاں نے ریاست کو بچانے کے لیے بھوپال کا عزم کیا۔ وزیر محمد خاں ریاست کے
[1] نواب صدیق حسن خاں ، از ڈاکٹر رضیہ حامد (ص: ۱۳۷)
[2] ایضاً