کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 47
نواب سید محمد صدیق حسن خاں رحمہ اللہ (۱۲۴۸۔۱۳۰۷ھ) ریاستِ بھوپال کا پسِ منظر: ریاستِ بھوپال کا بانی سردار دوست محمد خاں تھا، جو ۱۶۹۶ء میں افغانستان سے ہندوستان آیا۔ ابتدا میں وہ اورنگ زیب عالم گیر کی فوج میں ملازم ہوا، لیکن اورنگ زیب کی وفات کے بعد فوج سے علاحدگی اختیار کر کے ۱۷۰۸ء میں مالوہ آیا اور ایک جاگیر اِجارے پر حاصل کی۔ پھر اپنی بہادری اور فراست سے اس کے آس پاس کے علاقے پر قابض ہوگیا۔ اس نے ایک جنگ میں دشمن کے خلاف رانی کملاپتی کی مدد کی تھی، جس کے صلے میں رانی نے اسے بھوجیال (بھوپال) کا علاقہ عطا کیا۔ اس طرح ۱۷۲۲ء میں وسطِ ہند میں ایک مسلم ریاست کا قیام عمل میں آیا اور اس کے بعد اسے نواب دوست محمد خاں کہا جانے لگا۔ دوست محمد خاں اہلِ علم کا قدر دان تھا۔ وہ خود بھی انشا پرداز اور فارسی ادب میں دست گاہ رکھتا تھا اور بہت سے اصحابِ علم اس نے اپنے دربار میں جمع کر لیے تھے، جن میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی۔ افغانستان سے بھی اس نے اپنے اعزہ و اقارب اور علما و فضلا کو بلا لیا تھا، جنھیں بھوپال میں آباد کیا، انھیں جاگیریں دیں اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ ۱۷۲۶ء میں دوست محمد کا انتقال ہوگیا تو ریاستِ بھوپال کی عنانِ حکومت اس کے بیٹے نواب یار محمد خاں نے سنبھالی۔ یار محمد خاں اس سے قبل چار سال حیدر آباد (دکن) رہا تھا، جہاں اس نے بہتر طریقے سے علمی اور انتظامی تربیت حاصل کی تھی اور حیدر آباد سے متعدد اہلِ علم کو اپنے ساتھ بھوپال لے گیا تھا۔ اس کا دورِ حکمرانی قابلِ تعریف تھا۔ اس نے ۱۷۴۲ء میں وفات پائی۔ اب بھوپال کا تیسرا حکمران یار محمد خاں کے بیٹے نواب فیض محمد خاں کو بنایا گیا۔ تخت نشینی کے