کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 459
نے اسے تجدیدِ اسلام کا حکم دیا۔ ’’سبل السلام‘‘ اور ’’منحۃ الغفار‘‘ میں غیر اللہ کی قسم کھانے والے کا کفر ثابت کیا گیا ہے۔[1] رہی یہ بات کہ یہ لوگ کلمہ گو ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے: (( أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوا أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، وَیُقِیمُوا الصَّلَاۃَ، وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ فَإِذَا فَعَلُوا عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلَّا بِحَقِّہَا )) [2] [مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے حتی کہ وہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰه اور محمد رسول اللّٰه(صلی اللہ علیہ وسلم)کی گواہی دینے لگیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکات ادا کرنے لگیں ۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال بچا لیں گے، ہاں حق کے ساتھ جان و مال سے تعرض کیا جائے گا] ایک کلمہ گو شخص کے قتل پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: (( أَقَتَلْتَہُ بَعْدَ مَا قَالَ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ؟ )) [3] [تو نے اسے کلمہ پڑھنے کے بعد کیوں قتل کیا؟] نیز یہ لوگ مشرکین کے برخلاف نماز پڑھتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں ، زکات دیتے ہیں اور حج کرتے ہیں ۔ اس کے جواب میں مَیں کہتا ہوں : آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی حدیث میں (( إِلَّا بِحَقِّہَا )) کی قید لگا کر مسئلہ واضح کر دیا ہے۔ اسلام کا حق اکیلے اللہ کو الہ ماننا اور اسی کو عبادت کے لیے تنہا جاننا ہے، جبکہ گور پرست اللہ تعالیٰ کو الوہیت اور عبادت میں تنہا نہیں مانتے، لہٰذا ان کا کلمہ شہادت پڑھنا ان کے کسی کام نہیں آ سکتا، جب تک وہ اس کے معنی ومفہوم پر عمل پیرا نہ ہوں ۔ کلمہ گو مشرکین کے نیک اعمال کا حکم: دیکھو! یہودیوں نے بعض انبیا کو ماننے سے انکار کر دیا تھا، لہٰذا ان کے لیے یہ کلمہ شہادت پڑھنا سود مند نہ ہوا۔ اسی طرح جو شخص غیر نبی کو نبی ٹھہراتا ہے، اسے بھی یہ کلمہ پڑھنا کچھ فائدہ نہیں
[1] سبل السلام للصنعاني (۴/ ۱۰۱) منحۃ الغفار حاشیۃ ضوء النھار للصنعاني أیضاً۔ [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۲) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۰۲۱) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۶)