کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 446
تیسری فصل وسیلے کا شرک مذکورہ بالا بیان سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی شجر و حجر ، قبرو مدر، فرشتے و جن اور زندے یا مردے کے متعلق یہ عقیدہ رکھے گا کہ وہ نفع اور نقصان پہنچا سکتا ہے یا وہ اللہ تک میری رسائی کرا دے گا، اس کے پاس میرا سفارشی بن جائے گا اور اللہ سے دنیا کا میرا کوئی کام نکلوا دے گا تو وہ مشرک ہے، اس نے غیر کو اللہ کے ساتھ شریک کیا ہے۔ وہ ایسے اعتقاد کا معتقد بن گیا جو بتوں کے متعلق مشرکین کا اعتقاد تھا اور یہ حلال اور جائز نہیں ہے۔ ہاں ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ توسل کرنے کا ذکر آیا ہے، مگر اس کی صحت پر بہت سا کلام ہے۔[1] غیر اللہ کی نذر و نیاز: پھر اس شخص کے مشرک ہونے میں کیا شک رہ جاتا ہے جس نے اپنا مال اور اولاد کسی مردے یا زندے کی نذر کیا؟ اس مردے سے وہ حاجات طلب کیں ، جو صرف اللہ سے طلب کی جاتی ہیں ، جیسے بیمار کے لیے تندرستی یا لا پتا شخص کی واپسی کا مطالبہ کرنا۔ غرض کہ اس طرح کی کوئی بھی طلب ہو، یہ طلب عین اسی طرح کا شرک اور خالص کفر ہے جس طرح بتوں کے پجاری شرک کیا کرتے تھے۔ اپنا مال کسی مردے کی نذر کرنا، اس کی قبر پر جانور ذبح کرنا، اس کا وسیلہ پکڑنا اور پھر اس سے اپنی حاجتیں مانگنا؛ یہ سارے کام زمانہ جاہلیت کے تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں نے اپنے معبودوں کا نام صنم اور وثن رکھا تھا اور ان جھوٹے مسلمانوں نے ان کا نام ولی، قبر، مشہد، مزار، نذر، نیاز، منت اور عرس رکھا ہے۔ نام معانی کو نہیں بدلتے، خواہ وہ معانی لغوی ہوں یا عقلی یا شرعی۔ محض نام بدل دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ ایک شخص نے شراب پی اور اس کا پانی نام رکھا تو اس نے حقیقت میں پانی نہیں پیا، بلکہ وہی شراب پی ہے جو قطعی طور پر حرام تھی اور اسے وہی
[1] تفصیل کے لیے دیکھیں : التوسل، أنواعہ وأحکامہ (ص:۷۶)