کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 444
رازق جانتے تھے۔ لیکن جہنم کی تہہ میں جا کر انھوں نے یہ بات جان لی کہ توحیدِ عبادت میں ان کے شرک کے ذرات میں سے ایک ذرے کی آمیزش کرنے نے ان کو اس شخص کی طرح کر دیا جس نے اصنام اور ر ب الانام کو برابر ٹھہرایا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ھُمْ مُّشْرِکُوْنَ﴾ [یوسف: ۱۰۶] [اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، مگر اس حال میں کہ وہ شریک بنانے والے ہوتے ہیں ] یعنی اکثر لوگ جو اللہ کی ربوبیت اور خالقیت کا اقرار کرتے ہیں ، مگر بتوں کی عبادت کی وجہ سے مشرک ہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو اطاعت کے کاموں میں ریاکاری کرنے کو طاعات میں شرک کرنے کا نام دیا ہے، حالانکہ اس طاعت کے فاعل کا مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی ہے۔ بات صرف یہ ہوئی کہ اس نے اطاعت والا کام کر کے لوگوں کے دلوں میں اپنی قدر و منزلت پیدا کرنا چاہی۔ ریا کار نے عبادت تو اللہ ہی کی کی تھی، کسی اور کی نہیں ، لیکن اس نے اس عبادت میں بندوں کے دلوں میں اپنی قدرو منزلت پیدا کرنے کی طلب کی آمیزش کر دی، لہٰذا اس کی وہ عبادت قبول نہ ہوئی، بلکہ وہ شرک ٹھہری۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (( یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا أَغْنٰی الشُّرَکَائِ عَنِ الشِّرْکِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلاً أَشْرَکَ فِیْہِ مَعِيَ غَیْرِيْ تَرَکْتُہٗ وَ شِرْکَہٗ )) (رواہ مسلم) [1] [اللہ عزوجل فرماتا ہے: میں شریکوں میں شرک سے سب سے زیادہ بے پروا ہوں ۔ جس نے کوئی کام کیا اور اس میں میرے غیر کو شریک کر لیا تو میں اس شخص کو اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ] بلکہ اللہ تعالی نے تو ’’عبد الحارث‘‘ نام رکھنے کو بھی شرک قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَلَمَّآ اٰتٰھُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآئَ فِیْمَآ اٰتٰھُمَا﴾ [الأعراف: ۱۹۰] [پھر جب اس نے انھیں تندرست بچہ عطا کیا تو دونوں نے اس کے لیے اس میں شریک بنا لیے جو اس نے انھیں عطا کیا تھا]
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۹۸۵)