کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 431
پاس آکر توحید کی پہلی قسم کے متعلق تو اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمھاری یہ توحید درست ہے۔ انھوں نے مشرکین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یَدْعُوْکُمْ لِیَغْفِرَلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ﴾ [إبراھیم: ۱۰] [کیا اللہ کے بارے میں کوئی شک ہے، جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے؟ تمھیں اس لیے بلاتا ہے کہ تمھارے لیے تمھارے کچھ گناہ بخش دے] مزید فرمایا: ﴿ ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ﴾ [الفاطر: ۳] [کیا اللہ کے سوا کوئی پیدا کرنے والا ہے، جو تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ] نیز ان پیغمبروں نے اپنی امتوں کو شرک فی العبادۃ سے منع فرمایا، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ [النحل: ۳۶] [اور بلاشبہہ یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو] یعنی ہم نے رسولوں کو یہ مشن دے کر مبعوث کیا کہ وہ اپنی امتوں کو یہ دعوت دیں کہ اکیلے اللہ کی عبادت کرو۔ اس آیت میں مذکور لفظ ﴿فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ﴾ سے ثابت ہوا کہ تمام امتوں کی طرف آنے والے سارے رسول اسی توحید کی طرف بلانے کے لیے آئے، نہ اس لیے کہ وہ لوگوں کو یہ بات بتائیں کہ ساری کائنات کا خالق، رب اور رازق اللہ تعالیٰ ہے۔ اس لیے کہ وہ لوگ تو پہلے ہی سے اس بات کا اقرار کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر جو آیات نازل ہوئی ہیں ، وہ بطور استفہام تقریری کے ہیں ۔ فرمانِ خداوندی ہے: ﴿ ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ﴾ [الفاطر: ۳] [کیا اللہ کے سوا کوئی پیدا کرنے والا ہے؟]