کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 403
تیرے لیے جو مجاہدہ کیا اور خالصتاً تیرے لیے تعلیم و تعلم کا کام کیا، توسل اختیار کرتا ہوں ] تو اس کے جواز میں کوئی تردد نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا اٹھ کر قبر کے پاس جانا کس مقصد کے لیے ہے؟ اگر تو محض زیارت کے لیے ہے اور قصدِ زیارت کی تجرید کے بعد دعا و توسل کا قصد و ارادہ ہے تو یہ ممنوع نہیں ہے، کیونکہ اصل میں وہ محض زیارت کے لیے آیا تھا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے قبروں کی زیارت کی اجازت دے رکھی ہے، جس کی دلیل یہ حدیث ہے: (( کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ أَلَا فَزُورُوہَا )) (رواہ البخاري) [1] [میں نے تم کو قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا، لیکن سن لو! اب تم لوگ قبور کی زیارت کرو] آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی گھر سے نکلے، قبرستان کی زیارت کی، مردوں کے لیے دعا کی اور امت کو اس بات کی تعلیم دی کہ قبروں کی زیارت کے وقت یوں کہا کرو: (( اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ دَارِ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ وَإِنَّا بِکُمْ۔ إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔ لَاحِقُوْنَ، وَأَتَاکُمْ مَا تُوْعَدُوْنَ، نَسْأَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ )) [2] [اے گھر والے مومنو! تم پر سلام ہو اور ہم ان شاء اللہ تمھیں ملنے والے ہیں ، تمھارے پاس وہ چیز آگئی جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے، ہم اپنے لیے اور تمھارے لیے اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں ] اس صورت میں اس زائر نے وہی کام کیا جس کی اسے اجازت تھی اور وہ کام مشروع اور جائز تھا، لیکن اس شرط سے کہ وہ عزمِ سفر نہ کرے، کیونکہ زیارتِ قبور کی عدمِ سفر کے ساتھ قید وارد ہوئی ہے، چنانچہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے: (( لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إلَّا لِثَلَاثٍ۔۔۔الخ )) [3] لہٰذا قبروں کی مطلق زیارت اس حدیث کے ساتھ مقید ہے، پھر چند مخصصات کو اس سے مخصوص کر لیا ہے، ان ہی میں سے ایک زیارتِ قبر شریف ہے اور اس میں علما کا اختلاف ہے۔
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۷۷) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۷۵) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۵۴۷) مسند أحمد (۵/ ۳۵۳) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۱۸۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۳۹۷)