کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 394
جائے، اگر تو وہ توبہ کر لے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے قتل کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول بھیجے اور کتابیں نازل فرمائیں ، ان کا مقصد یہی تھا کہ اکیلے اللہ کی عبادت کی جائے، اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھہرایا جائے۔ جو لوگ اللہ کے ساتھ اور معبودوں کو بھی پکارتے ہیں ، جیسے مسیح، ملائکہ اور بت، وہ اس بات کے معتقد نہ تھے کہ یہ مخلوقات کو پیدا کرنے والے یا بارش نازل کرنے والے یا نباتات کو اگانے والے ہیں ، بلکہ یہ لوگ ان کی یا ان کی قبروں اور تصویروں کی عبادت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس لیے ان کی پوجا کرتے ہیں تا کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں اور اس کے پاس ہمارے سفارشی بن جائیں ، اس پر اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے اور انھوں نے اس بات سے منع کیا کہ اللہ کے سوا کسی اور کو پکارا جائے، خواہ انھیں عبادت کے طور پر پکارا جائے یا استغاثے کے لیے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلَا یَمْلِکُوْنَ کَشْفَ الضُّرِّعَنْکُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًا *اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ﴾ [الإسرائ: ۵۶۔ ۵۷] [پکارو ان کو جنھیں تم نے اس کے سو اگمان کر رکھا ہے، پس وہ نہ تم سے تکلیف دور کرنے کے مالک ہیں اور نہ بدلنے کے۔وہ لوگ جنھیں یہ پکارتے ہیں ، وہ (خود) اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں ، جوان میں سے زیادہ قریب ہیں ] سلف کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ایک قوم والے مسیح، عزیر اور ملائکہ علیہم السلام کو پکارتے تھے۔[1] پھر اسی کتاب میں شیخ رحمہ اللہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ اصل دین یہی اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت ہے اور یہی وہ توحید ہے جو اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو دے کر اس دنیا میں مبعوث کیا اور کتابیں نازل فرمائیں ۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ [النحل: ۳۶] [اور بلاشبہہ یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو]
[1] مجموع الفتاویٰ (۳/۳۹۵)