کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 392
قیامت کے دن ہر گز نہ تمھاری رشتے داریاں تمھیں فائدہ دیں گی اور نہ تمھاری اولاد، وہ تمھارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ اسے جو تم کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔ یقینا تمھارے لیے ابراہیم اور ان لوگوں میں جو اس کے ساتھ تھے ایک اچھا نمونہ تھا، جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ بے شک ہم تم سے اور ان تمام چیزوں سے بری ہیں جنھیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، ہم تمھیں نہیں مانتے اور ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض ظاہر ہو گیا، یہاں تک کہ تم اس اکیلے اللہ پر ایمان لاؤ] شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ ’’إقناع‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں : ’’إن من دعا میتا، و إن کان من الخلفاء الراشدین فھو کافر، وإن من شک في کفرہ فھو کافر‘‘ [یقینا جس کسی نے میت کو پکارا اور اس سے دعا کی، چاہے وہ میت خلفاے راشدین میں سے کوئی ہو، تو وہ کافر ہے اور جس شخص نے اس کے کفر میں شک کیا وہ بھی کافر ہے] ابو الوفا ابن عقیل رحمہ اللہ نے ’’فنون‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ جب جاہلوں اور سرکشوں پر شرعی احکام گراں بار ہوئے تو وہ شریعت کے طریقوں کو چھوڑ کر ان طریقوں کی تعظیم کی طرف آئے جن کو خود انھوں نے وضع اور ایجاد کیا تھا، چنانچہ یہ طور طریقے ان پر سہل اور آسان ہو گئے، کیونکہ وہ کسی اور کے حکم کے ماتحت نہ رہے، چنانچہ میرے نزدیک یہ لوگ مندرجہ ذیل ان امور کے سبب کافر ہیں ، جیسے قبروں کی تعظیم کرنا، اپنی حاجات میں مردوں سے خطاب کرنا اور انھیں پکارنا، اپنی تحریروں کو ان الفاظ کے ساتھ لکھنا: ’’اے میرے مولی! ایسے اور ایسے کر۔‘‘ اسی طرح لات و عزیٰ کے پجاریوں کی اقتدا میں لباس کے ٹکڑے اور پارچے درخت پر لٹکانا۔ انتہی علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’إغاثۃ اللھفان‘‘ میں قبروں کی تعظیم کے انکار میں یہ کہا ہے کہ ان مشرکوں کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کے بعض غالیوں نے ایک کتاب تیار کی ہے جس کا نام ’’مناسک المشاھد‘‘[1] [مشاہد و قبور کے مناسک اور عبادات] ہے۔ یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ایسا کرنا دینِ اسلام سے الگ ہونا اور بتوں کے پجاریوں کے دین میں شامل ہونا ہے۔[2] انتہیٰ۔
[1] یہ کتاب پانچویں صدی ہجری کے ایک غالی شیعہ ’’ابن المفید الشیعي‘‘ کی ہے۔ [2] إغاثۃ اللھفان(۱/۲۸۸)