کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 369
[اے فلاں بن فلاں ! اللہ کے پاس میں تیرے کسی کام نہیں آ سکتا۔ اے فلانہ بنت فلاں ! اللہ کے ہاں میں تیرے کسی کام نہیں آ سکتا۔ اے بنو فلاں ! میں اللہ کے ہاں تم سے کچھ کفایت نہیں کر سکتا] آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس خطاب میں جگر گوشہ نبوت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی داخل تھیں ۔[1] اندھی عقیدت رکھنے والے قبر پرستوں کے لیے لمحہ فکریہ: اب ذرا اس ممنوع اور خلافِ قرآن و حدیث غلو پر نظرو فکر کرنا چاہیے، جس میں اس امت کے اکثر لوگ گرفتار ہیں ، جیسے صاحبِ قصیدۂ بردہ نے کہا ہے: یا أکرم الخلق ما لي من ألوذ بہ سواک عند حلول الحادث العمم [اے مخلوقِ خدا میں معزز ترین شخص! حوادث کے وقت تیرے سوا میرے لیے کوئی ہستی نہیں جس کی میں پناہ پکڑوں ] اس شعر میں شاعر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ ہر پناہ گاہ کی نفی کی ہے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)ہیں ۔ نیز اس شخص نے اپنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رب کا ذکر کرنے سے بھی غفلت اختیار کی ہے۔ إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون! تعظیم میں غلو شرک کا ایک شیطانی جال ہے: غیر اللہ کی تعظیم و عقیدت میں غلو شرک میں پھنسنے کا وسیع دروازہ ہے۔ شیطان نے اہلِ اسلام کی ایک جماعت کے ساتھ یہاں تک یہ کھیل کھیلا ہے کہ وہ غیر انبیا کو بھی شاعر کے مذکورہ خطاب کی طرح خطاب کرنے لگے اور شرک کے بہت سے دروازوں میں داخل ہو گئے، چنانچہ ایک شاعر نے ابن العجیل کو یوں خطاب کیا ہے: ھات لي منک یا ابن موسیٰ إغاثۃ عاجلاً في مسیرھا حثاثۃ [اے ابن موسیٰ! (ابن العجیل) اپنی طرف سے میری اتنی جلد مدد فرما، جس میں تیزی ہو]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۶۰۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۳۰۴)