کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 356
کام ان گور پرستوں سے قبر کے حق میں سر زد ہو تے ہیں ۔ زمانہ حال کے مشرک ایک ہاتھ آگے: آج کے دور کے قبر پرست قبروں کی اتنی تعظیم کرتے اور ان کا اتنا ادب بجا لاتے ہیں جو اللہ کے سوا کسی کے لائق نہیں ہے، بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک عاصی اور نافرمان جب کسی ایسے مشہد میں یا اس کے پاس ہوتا ہے جس کا وہ معتقد ہے، تو وہ فوری گرفت اور سزا کے ڈر سے وہاں معصیت کا ارتکاب نہیں کرتا، مبادا وہ میت اسے کوئی نقصان پہنچا دے اور اگر وہ اللہ کے حرم یا کسی مسجد میں یا مسجد کے قریب ہو تو کبھی اس گناہ کو ترک نہ کرے۔ بلکہ بعض غالی قسم کے مشرک اللہ کی جھوٹی قسم تو کھا لیتے ہیں ، مگر اس میت کی جھوٹی قسم نہیں کھاتے جس کے وہ معتقد ہوتے ہیں ۔ اگر ان کے دلوں میں اس میت کی نسبت نفع وضرر کا اعتقاد نہ ہوتا، تو ان میں سے کوئی بھی کسی مردہ یا زندہ کو حصولِ نفع اور دفعِ ضرر کے قصد و ارادے سے یوں نہ پکارتا کہ اے فلاں ! میرا یہ کام اور وہ کام کر دے، نیز وہ ’’علی اللّٰه و علیک‘‘ [اللہ پر اور تجھ پر میرا بھروسا ہے] یا ’’أنا باللّٰه وبک‘‘ [میں اللہ تعالیٰ اور تمھاری مدد کے سہارے پر ہوں ] نہ کہتا۔ جہاں تک ان مشرکین کے مردوں کے ساتھ قرب کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں قبروں پر چڑھنے والے چڑھاوے اور نذرانے دیکھنے چاہییں ، جو اکثر محلات و قصبات اور بلاد و دیہات میں جاری ہیں ۔ اگر کوئی اس گور پرست اور پیر پرست سے کہے کہ تو اپنا کچھ مال اللہ کے لیے خرچ کر تو وہ ہر گز نہ کرے گا اور اس کا دل اس کام کے لیے حوصلہ نہیں کرے گا۔ یہ بات معلوم ہے اور اسے ہر وہ شخص جانتا ہے جو قبروں کے معتقدین اور زندوں کے مریدین کے احوال کو پہچانتا ہے۔ دورِ حاضر کے قبر پرستوں کا مردوں پر اعتقاد: اگر کوئی یہ کہے کہ یہ گور پرست اور پیر پرست اللہ ہی کو نفع و نقصان کا مالک جانتے ہیں اور خیر و شر کا اسی کے ہاتھ میں ہونا اعتقاد کرتے ہیں ، مردوں کے ساتھ ان کا استغاثہ فقط اس لیے ہے کہ جو چیز یہ اللہ سے مانگتے ہیں ، وہ ان کے ذریعے سے مل جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اہلِ جاہلیت بھی اسی حال پر تھے، وہ بھی یہی کہتے تھے کہ فائدہ اور نقصان، اچھائی اور برائی اللہ ہی