کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 347
جائے گا اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرے گا وہ گمراہ ہو جائے گا] یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (( بِئْسَ الْخَطِیْبُ أَنْتَ )) [تو برا خطیب ہے] تو نے مجھے اور اللہ تعالیٰ کو لفظ ’’یعصھما‘‘ میں شریک کر دیا ہے۔ (یہ روایت صحیح میں آئی ہے)۔ [1] حالانکہ اس خطیب نے یہ الفاظ محض عربی محاورے کے طور پر بولے تھے، شرکیہ اعتقاد کی بنا پر نہیں ، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شرک کے خدشے کی بنا پر اس عبارت کی ترکیب کو بہتر نہ سمجھا، الغرض آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو احتمالی شرک کی نفی اور انواعِ شرک کے ذرائع کو بند کرنے کا اہتمام ملحوظِ خاطرِ عاطر رہتا تھا۔ شرک خفی کی چند صورتیں : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ: ﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا﴾ [البقرۃ: ۲۲] [پس اللہ کے لیے کسی قسم کے شریک نہ بناؤ] کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’أنداد‘‘ یعنی شرک جو رات کی تاریکی میں سیاہ پتھر پر چلنے والی چیونٹی کی چال سے بھی مخفی تر ہے، مثلاً کوئی شخص کہے: ’’واللّٰه، و حیاتک یا فلان، و حیاتي‘‘ [قسم ہے اللہ کی، قسم ہے تیری جان یا میری جان کی] یا یوں کہے: ’’اگر اس شخص کی کتیا نہ ہوتی تو چور آ جاتا، یا اگر گھر میں یہ بطخ نہ ہوتی تو چور آ جاتا، یا یوں کہے: جو اللہ چاہے اور تو چاہے۔‘‘ یا یوں کہے: ’’اگر اللہ اور فلاں نہ ہوتا تو یوں ہوتا۔‘‘ یہ سب اقوال شرک کے زمرے میں آتے ہیں ۔[2] انتہیٰ غرض کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر کا ذکر ملایا وہ مشرک ہو گیا، کیونکہ اس نے غیر اللہ کو اللہ کا ہمسر ٹھہرایا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے: (( لَا یَقُلْ أَحَدُکُمْ: أَطْعِمْ رَبَّکَ، أَرْضِ رَبَّکَ، وَلَا یَقُلْ أَحَدُکُمْ: عَبْدِي وَ أَمَتِيْ، وَلْیَقُلْ: فَتَايَ وَفَتَاتِيْ وَغُلَامِيْ )) (أخرجہ البخاري) [3] [تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ اپنے رب کو کھانا کھلا، اپنے رب کو راضی کر، نیز تم میں سے کوئی شخص میرا بندہ یا میری لونڈی نہ کہے، بلکہ وہ میرا لڑکا اور میری لڑکی اور میرا غلام کہے] اس طرزِ تخاطب سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ غلام کا آقا کے ساتھ یہ انداز اللہ سے مخاطب
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۷۰) [2] تفسیر ابن أبي حاتم (۱/۶۲) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۵۵۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۲۴۹)