کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 300
لہٰذا اس اعتبار سے اخلاصِ توحید پر دلالت کی تقریر ویسی ہی ہے جس اعتبار سے ماقبل میں دلالت کی تقریر تھی۔ یہ مکمل تیس دلیلیں ہیں جو سورت فاتحہ سے ترکیبات عربیہ کے افادے کے اعتبار سے اور دقائق و اسرارِ علوم الٰہیہ کے ملاحظے کے ساتھ حاصل ہوتی ہیں ۔ مذکورہ الفاظ کے مقتضیات میں تفسیر سے قطعِ نظر، حسبِ مادہ وہیئت و صورت اس معنی کے ساتھ خاص کر کے، جس کو بعض سلف نے بیان کیا ہے، اور بعض خلف نے اس پر وقوف کیا ہے، داخل ہیں ۔ اگر کوئی کہے کہ تم نے اس سورت سے جو دلیلیں نکالیں اور انھیں تیس کے عدد تک پہنچا دیا، ہم نے اس میں نہ تو تمھارا کوئی سلف پایا ہے اور نہ کسی اور نے اس میں تم سے سبقت کی ہے، تو ہم کہیں گے: ’’وتلک شکاۃ ظاہر عنک عارھا‘‘ [تمھارا یہ شکوہ بے جا اور یہ اعتراض بے موقع ہے] اس لیے کہ قرآن مجید عربی زبان میں ہے اور وہ دلیلیں جو ہم نے سورت فاتحہ سے نکالی ہیں ، یہ بھی لغتِ عرب اور ثقہ لوگوں کے مدونہ علوم کے تقاضے کے مطابق ہیں ، جن کے راوی عادل اور ثقات تھے، نیز سورت فاتحہ پر یہ تقریر خالی رائے زنی نہیں ہے، جس سے شریعت میں منع کیا گیا ہے اور ایسا کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ کی گئی ہے، بلکہ یہ تو کتاب اللہ کا وہ مفہوم ہے جو کسی شخص کو عطا ہو جاتا ہے، جس طرح علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مشہور کلام میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[1] لہٰذا جو بات اس قبیل کی ہوتی ہے وہ سلف کے ذکر کرنے یا نہ کرنے کی محتاج نہیں ہوتی، اس کے لیے عربی زبان اور سلف کے علوم مدونہ و حقہ ہی کافی ہوتے ہیں ۔ ٭٭٭
[1] دیکھیں : صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۸۸۲)